The Department of Computer Science at LUMS offers a rigorous undergraduate education. Our goal is to deliver CS education that is at par or better than the world’s finest educational institutions. Our program not only prepares our students for careers in leading companies but also in carrying our world-class research. LUMS CS students have been consistently placed in leading companies across the world including Google, Microsoft, Facebook, and Amazon and receive fully-funded graduate admission offers from the most prestigious universities in the world including MIT, Stanford University, UC Berkeley, CMU, UIUC, UT Austin and many others. For the last many years we have had 100% success rate for graduate admissions and job placements. As CS education is important in many other disciplines, we believe in imparting broad-based education to our students. Thus, in addition to CS courses, the students could take as many as ten courses from other departments including Management, Economics, Law, Biology, Mathematics and others, thus broadening their horizon in multiple disciplines.

In a world where security is paramount, the ability to protect…
In a world where security is paramount, the ability to protect personal information is constantly evolving. At SBASSE, a team of talented computer science researchers has uncovered a vulnerability in smartphone technology that could change the way we think about privacy.
The paper, "Glitch in Time: Exploiting Temporal Misalignment of IMU for Eavesdropping," has just been accepted to AsiaCCS 2025 (Core Rank A), a prestigious conference in the field of cybersecurity. With a competitive acceptance rate of only 15% in Cycle 1, this marks a significant achievement for the team, composed of Dr. Naveed Anwar Bhatti, Ahmed Najeeb, Abdul Rafay, and Dr. Muhammad Hamad Alizai.
What began as a simple class project for CS 677 in 2023 quickly turned into a journey of discovery. Ahmed and Abdul, both passionate about technology, set out to replicate existing research aimed at reconstructing audio from mobile accelerometer data. Their breakthrough came when they introduced a clever twist—misaligning the timing between the smartphone’s gyroscope and accelerometer. This allowed the gyroscope data to enhance the accelerometer data, making it possible to reconstruct voice commands at a lower sampling rate, all without requiring user permissions.
This discovery has profound implications for smartphone security. The ability to "listen" to your voice assistant commands without consent—using just two sensors at a sampling rate as low as 200 Hz—poses a major privacy risk. The vulnerability comes from the fact that these sensors don’t require user permission to operate at low rates, making them an ideal target for exploitation.
After months of hard work, the project blossomed into a senior-year SProj and was submitted to AsiaCCS 2025 in August 2024. The team's work has now earned them a place in one of the world’s top cybersecurity forums, where their research will undoubtedly inspire further innovations.
Dr. Naveed shares his pride, saying, “We can’t help but feel proud of Ahmed and Abdul, who poured their heart and soul into this project.”
Ahmed, now pursuing his PhD at Rochester Institute of Technology (RIT), and Abdul Rafay, who is continuing his academic journey as a Teaching Fellow in CS at LUMS, have “both proven that with dedication and creativity, the boundaries of what is possible in technology can be pushed even further.”
Congratulations to the team on their groundbreaking success!

لمز سکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ میں پی ایچ ڈی کمپیوٹر سائنس…
لمز سکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ میں پی ایچ ڈی کمپیوٹر سائنس کی طالبہ عاطرہ انعم احمد کی شاندار تحقیق ، جو اس پریشانی کا حل تلاش کرنے میں معاونت فراہم کرتی ہے۔ عاطرہ نےحال ہی میں قابلِ تحسین تحقیقی نتائج کی بنیاد پر اپنے فائنل تھیسز کا کامیاب دفاع کیا۔
ہم جانتے ہیں کہ کمپیوٹرز ہارڈویئر اور سافٹ ویئر کا امتزاج ہیں ۔لیکن سافٹ ویئر انجینئرنگ1 کے مروجہ طریقے( جیسے کوڈ کا دوبارہ استعمال اور یکسانیت) سافٹ ویئر کے سائز ،پیچیدگی ، حفاظتی کمزوریوں اور خرابیوں کے امکانات میں نمایاں اضافہ کردیتے ہیں ۔ مزید برآں یہ طریقے سافٹ ویئر کی کارکردگی اور وثوق کوبھی کم کرتے ہیں۔ یہ صورتحال سافٹ ویئر بلوٹ2 کے مسئلے کا بنیادی سبب ہے، جو میموری3 میں وسائل کے ضیاع کا باعث بھی ہے۔
سافٹ ویئر بلوٹنگ کے عارضے کے تدارک کے لیے موجود ہ متعدد جدید ترین طریقہ کار کو بادی النظر میں دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جنھیں تحریری طور پر اعلیٰ سطحی تفصیلی تصریحات مثلاً ٹیسٹ کیسز 4 کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ طریقہ کار صارفین کے لیے بوجھل اور غیر موزوں ہو سکتے ہیں۔ دوسرے وہ طریقےہیں جو تشکیلاتی معلومات 5 واضح کرنے کے لیے سطر الامر دلائل (کمانڈ لائن آرگیومنٹس6 ) کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کوایپلی کیشن کے کوڈ میں مستقل 7 کے طور پر پھیلاتے ہیں اورڈیڈ کوڈ کو حذف کرتے ہیں جو مستقلات موجود ہونے پر عمل میں نہیں آتا ہے ۔
اس کےپیش نظر عاطرہ کی تحقیق مندرجہ ذیل نکات پر مرکوز ہے:
اول:تحقیق میں یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جدید ٹولز میں استعمال ہونے والے طریقہ کار، ڈیڈ کوڈ کے خاتمے کے معاملے میں غیر موثر ہیں ۔ کیونکہ وہ سیاق و سباق سے بے نیاز ہو کر کوڈ میں مستقل کو پھیلا دیتے ہیں۔ لہذا عاطرہ کے کام میں سیاق و سباق کی حساسیت پر مبنی خفیف مستقل پھیلاؤ 8 متعارف کرایا گیا ، جو صرف تشکیلاتی معلومات کے حامل متغیرات کے لیے مستقلات کی افزائش کرتا ہے ۔
دوم: جدید ٹولز جامد تشکیلاتی فائل9 سے قطع نظر یا توصرف سطر الامر دلائل10 پر انحصار کرتے ہیں یاایسی فائل سے نمٹنے کے لیے دستکارانہ طریقہ فراہم کرتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے خودکار فائل آئی /او تخصص11 کی تجویز پیش کی گئی ، یعنی، فائل میں جامد تشکیلاتی معلومات کوڈ میں مستقل کے طور پر اٹھائی جائے۔ یہ طریقہ کار فائل کا تجزیہ کرنے والے کوڈ کو آسان بناتا ہے اور ڈید کوڈ کو حذف کر دیتا ہے ۔
سوم: خود کار انداز سے کوڈ سائز میں کمی کے سلسلے میں تخصص کے فوائد دینے والےافعال کی نشاندہی کے لیےڈیپ لرننگ کے طریقے12 تجویز کیے گئے ہیں۔اس ضمن میں تخصص سے وابستہ افعال کی دو اقسام پر مبنی ایک تربیتی ڈیٹاسیٹ13 تیار کیا جائے گا ۔ صارف اپنے ماڈل کو اس ڈیٹاسیٹ پر تربیت دے کر ایپلی کیشنز میں قابل تخصیص اورنا قابل تخصیص افعال کی پیش گوئی کر سکیں گے۔
عاطرہ نے ٹرمر 14 پر سیاق و سباق کی خفیف حساسیت اور فائل آئی / او تخصص کو نافذ کیا ۔ انھوں نے 20 لینکس یوٹیلیٹیز 15 (بشمول جامد تشکیلاتی فائلز کے متقاضی چھے بینچ مارکس)پر اپنی مجوزہ سفارشات کو پرکھا ۔ یہ سفارشات ،سیاق و سباق کی حساسیت اور غیر حساسیت کے مقابلے میں، مشترکہ حفاظتی خطرات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ کوڈ کے سائز میں اوسطاً زیادہ کمی فراہم کرتی ہیں ۔
عاطرہ کے نزدیک پی ایچ ڈی آسان نہیں۔ یہ منصوبہ وقت طلب ہے۔ یہ صرف محنت یا ذہانت نہیں ہے بلکہ یہ کثیر تبادلہ خیال، مستقل مزاجی، وجوہات کی کھوج میں طویل اوقات کام کرنے، دباؤ محسوس کرنے، کئی بار ناکام ہونے اور دوبارہ کھڑے ہونے کے بارے میں ہے۔ بعض اوقات، آپ کو اپنی ذاتی ترجیحات، خاندان اور دوستوں کو نظر اندازبھی کرنا پڑتا ہے۔ الغرض صورت حال کچھ بھی ہو، اس سفر میں ثابت قدمی اور انتہائی بلند حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اپنے اس کامیاب سفر کے لیے لمز سکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ کےقابل اساتذہ ، معاون عملے اور حوصلہ افزا ساتھیوں کی تہہ دل سے مشکور ہیں۔ آج کل عاطرہ ایک پرائیوٹ یونیورسٹی میں لیکچرار کی خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔ وہ مستقبل میں شعبہ تعلیم سے وابستہ رہنے اور معیاری تحقیق شائع کرنے کی متمنی ہیں۔
- Software Engineering
- Software Bloat
- Computer Memory
- Test Cases
- Configuration Information
- Command-Line Arguments
- Constant
- Sparse Constant Propagation
- Static Configuration File
- Command Line Arguments
- Automated File I/O Specialization
- Deep Learning
- Training Dataset
- TRIMMER - a configuration-driven code debloating tool
- Linux Utilities

بلاشبہ ٹیکنالوجی انسانی زندگیوں میں آسانی، علم و ہنر میں ترقی…
بلاشبہ ٹیکنالوجی انسانی زندگیوں میں آسانی، علم و ہنر میں ترقی اور ترویج کا باعث ہے لیکن اس کے معاشرے میں بڑھتے مضر اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیا زبان زد عام مصنوعی ذہانت خصوصاً ڈیپ فیک کا منفی استعمال واقعی انسانی سوچ اور رویوں میں تبدیلی لا نے کی سکت رکھتا ہے؟ اس موضوع پر لمز میں جاری یہ تحقیق ۳ مرتبہ بین الا قوامی میٹا انٹیگرٹی ایوارڈ اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئی
اس کہانی کا آغاز سردیوں کی ایک دوپہر میں ہوا جب لمز کے تین ساتھی ،ڈاکٹر آغا علی رضا ، ڈاکٹر عائشہ علی، اور ڈاکٹر احسان ایوب قاضی اپنی اپنی تحقیق پر تبادلہ خیال کر رہے تھے ۔ ڈاکٹر عائشہ اور ڈاکٹر احسان نے ڈیجیٹل خواندگی اور گمراہ کن معلومات اور اطلاعات کے عوام پر اثرات سے متعلق اپنے کام کا ذکر کیا۔ اس دوران ڈاکٹر آغا نے اپنے ساتھیوں کو اپنا ایک سافٹ ویئر1 دکھایا جو تحریر کو تقریر میں بدلنے کی صلاحیت کا حامل تھا۔ انھوں نے اس تکنیک کے ذریعے تحریر کو ایک معروف ادبی شخصیت کی آواز میں منتقل کرکے اصل اور نقل کی پہچان کرانے کا تجربہ کیا تھا۔ یوں گفتگو کے دوران ان ساتھیوں کو مل کر کام کرنے کا خیال آیا اور باہمی مشاورت سے اس کام کو با ضابطہ تحقیق کے طور پر آگے بڑھانے کا عمل شروع ہوا ۔
سن ۲۰۱۹ء میں ڈاکٹر عائشہ اور ڈاکٹر احسان نے پہلی بار میٹا انٹیگرٹی ایوارڈ جیتا ۔ سن ۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۳ء میں اس انعام کی جیت اسی تحقیقی سلسلے کی اہم کڑی ہے ۔
۲۰۱۹ میں پیش کیے جانے والے کام کا بنیادی مقصد پاکستان کے لوگوں میں ڈیجیٹل خواندگی کو جانچنا اور تدریسی و تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کے لوگوں میں ممکنہ طور پر غلط معلومات اور اطلاعات کی شناخت کی صلاحیت کو بہتر بنانا تھا۔ ڈاکٹر عائشہ کے مطابق ایسی افواہوں اور معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نشریاتی پابندیوں کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس لائحہ عمل کے برعکس ان کی توجہ صارفین کو ذی شعور اور صاحب فہم و ادراک بنانے پر مرکوز رہی۔ اس ضمن میں ایک ہزار گھرانوں کا انتخاب کر کے آر سی ٹی ٹیسٹ کیےگئے۔ ڈیجیٹل خواندگی کو جانچنے اور مختلف عوامل کے حقیقی محرکات کا، اتفاقات کی بجاۓ عملی شواہد کی بنیاد پر ،تعین کرنے کے لیے بنیادی طور پر مقداری تشخیص2 کا استعمال کیا گیا ۔ صنف ، آمدنی ، اور عمر کے ڈیجیٹل خواندگی اور گمراہ کن معلومات کی صلاحیتِ نشاندہی پر اثرات سے متعلق تجزیہ کیا گیا۔ نیز رویوں سے متعلق ڈیجیٹل گیمز کے ذریعے حقائق کی پڑتال کے لیے موجود خدمات3 کی طلب میں کمی یا بیشی پر کیفیاتی تجزیات بھی کیے گئے۔ اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ لوگوں میں ڈیجیٹل خواندگی میں کمی ان کے گمراہ کن معلومات سے متاثر ہونے کے امکانات سے براہ راست نسبت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر آغا کی ٹیم میں شمولیت کے بعد اس تحقیقی سلسلے کو تکنیکی تناظر میں مزید آگے بڑھایا گیا۔ ۲۰۲۰ میں پیش کی جانے والی سفارشات میں گمراہ کن معلومات خصوصاً ڈیپ فیک4 کے لوگوں کے رویوں پر اثرات کو پرکھنا، انکے سیاسی نظریات کے بدلاؤ اور معاشرتی تقطیب5 میں ایسی معلومات کے کردار کی تصدیق کرنا ،شامل تھا۔ اس تحقیق کے نتائج سے گمراہ کن معلومات کے ابتدائی و ارتقائی عوامل کی شناخت اور انسانی رویوں پر اس کی قوت اثر واضح ہو گئی ۔ اب اگلا قدم صارفین کو ایسی ضرر رساں یا گمراہ کن معلومات کی نشاندہی کے لیے با صلاحیت بنانا تھا۔
۲۰۲۳ میں اس ایوارڈ کا محور موثر قیمت اور قابل افزائش ڈیجیٹل تدریسی سفارشات کی تشکیل ہے جوعام صارفین میں ڈیجیٹل خواندگی کو بہتر بنا سکیں ۔ڈاکٹر آغا کے مطابق اس ضمن میں ٹیم کے پیش نظر دشوار امر یہ ہے کہ جب لوگوں میں ڈیپ فیک اور اس سے منسوب تدلیس و تلبیس کا شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو عموماً وہ صحیح چیز کو پہچاننے میں بھی تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہر چیز کو ہی غلط سمجھنے لگتے ہیں۔ اس طرح بجائے فائدے کے ، الٹا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔
لوگوں کو با شعور بنانے کی یہ کاوش ترقی پذیر ممالک کی کم ڈیجیٹلی خواندہ آبادی پر مرکوز ہے۔ حکمت عملی کے تحت مستند اور معتبر ذرائع سے نشان زدہ معلومات کا استعمال کر کے تین بنیادی مقاصد کے حصول کے لیے کام کیا جائے گا۔
ان میں (ا) جعلی معلومات کی نشاندہی کے طریقے بتانا، (ب) جذباتی اور اشتعال انگیز مواد تخلیق کرنے کی تراکیب سے آشنا کرنا، اور (ج) معلومات کی پڑتال کے لیے موجودہ اداروں اور ان کی خدمات سے مستفید ہونے کا ہنر سکھانا شامل ہیں ۔ یہاں گیمز کے استعمال کا مقصد صارفین کی توجہ کا حصول ہے۔ اس تحقیق کے نتائج کو ماپنے کے لیے صحیح اور غلط کی نشاندہی کی صلاحیت اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی پر تجزیہ کیا جائے گا۔
مزید برآں اس تحقیق میں پہلے سے موجود مماثل سرگرمیوں اور سفارشات کا تقابلی جائزہ بھی لیا جائے گا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایسا فریم ورک تیار کیا جائے گا جو ڈیجیٹل گیمز سے استفادہ کرتے ہوئے ان سفارشات کا موازنہ کر سکے اور ان کی تاثیر کو عملی طور پر جانچ سکے ۔ یہ کام چونکہ صارفین اور انکے رویوں سے متعلق ہے لہذا معاشرتی سیاق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ جائزہ حکومتی فیصلہ سازی کی سطح پر بہتر حکمت عملی کی تیاری اور نفاذ میں بے حد مدد گار ثابت ہو گا۔ ٹیم کا خواب اور عزم ہے کہ مستقبل میں اس تحقیق سے ایسی معیاری سفارشات جنم لیں جنھیں آنے والے دنوں میں نصاب کا حصہ بنایا جا سکے۔
۲۰۲۳ میٹا ایوارڈ کے لیے دنیا بھر کی ۳۹۴ یونیورسٹیوں سے موصول ہونے والی ۵۰۴ درخواستوں میں سے محض ۹ کامیاب ہو ئیں۔ ڈاکٹر احسان کے مطابق ایک مسابقتی پیشکش6 میں بہت سی باتیں اہم ہیں ۔ ان میں زیر غور مسئلہ کے حقیقی مقاصد و اہمیت ، شدت و اثرات، سیاق و سباق ، حوالہ متن ، ماہرانہ حکمت عملی اور سرمایہ کار ادارے کی پیشکش کے مقاصد میں دلچسپی و ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ قابل، باصلاحیت،ہم خیال اور سرگرم کثیر الشعبہ ٹیم کی موجودگی نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر احسان اور انکی ٹیم کی نظر میں لمز میں اساتذہ اور محققین کو ملنے والی آزادی وقت ، حمایتی لوگ اور معاون نظام ان کی گُونا گُوں کامیابیوں کی بنیاد ہیں۔

ڈاکٹر عائشہ علی لمز شعبہ معاشیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور توانائی، انفارمیشن معاشیات اور سیاسی معاشیات میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر آغا علی رضالمز سکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں اسسٹنٹ پروفیسر اور سینٹر فار سپیچ اینڈ لینگویج ٹیکنالوجیز7 کے بانی ہیں ۔
ڈاکٹر احسان ایوب قاضی لمز سکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور گمراہ کن معلومات کی روک تھام ، ڈیجیٹل ترقی ، کلاؤڈ /ایج کمپیوٹنگ 8 اورٹیکنالوجی و منصوبہ سازی کے تعامُل پر تحقیق کرتے ہیں۔
- Software
- Quantitative Evaluation
- Fact checking services
- Deep Fake
- Polarization
- Competitive Proposal
- Center for Speech and Language Technologies (CSaLT)
- Cloud/Edge Computing

There’s no doubt that social media is a microcosm of information, that covers a great swath of…
There’s no doubt that social media is a microcosm of information, that covers a great swath of topics. Tweets and touts relaying public policy, to messages that have been forwarded many times spreading misinformation regarding something as serious as COVID-19. The landscape of social media is fertile for the growth and spread of both correct and incorrect information. However, healthcare is a serious issue and laying down a misinformation mine can prove fatal in some cases. Therefore, researchers at SBASSE have created Baang – a digital platform where you use your voice to access reliable healthcare advice!

But why develop a voice-based service? Over the last two decades, voice-based social media platforms have been enabling people who are poor, remote, and low-literate to still get the benefits of the Internet. These platforms allow users to call toll-free phone numbers to record voice messages in their local language and listen to and react to messages recorded by others. Mobile Vaani connects over five million people to infotainment in the media-dark regions in India and CGNet Swara enables rural communities to listen to local news and report grievances. The paper outlines the need for creating a new, versatile application experience. Many scholars have examined the vital role that mainstream social media plays during crises and disasters, for example, by establishing rapid and direct communication channels from authorities, providing support and information to people in need, and bringing to light the challenges on the ground. However, there is a scarcity of research on how voice-based social media platforms are used during public health emergencies by users who are predominantly low-literate and low-income.
To fill this gap, the research team examined three strategies to foster engagement with and dissemination of trusted information: (1) encourage users to access a curated list of approved health guidelines, (2) provide them incentives to engage with and propagate trusted COVID content, and (3) prompt them to reflect on their COVID-related information behaviors. Over a six-month deployment, the platform received around half a million calls from 12,000 users, who were predominately low-literate, low-income men from across Pakistan, with 96% having less than ten years of education. These users recorded over 35,000 audio posts, played them over 2.4 million times, voted on them 322,000 times, and shared them with other users over 130,000 times. The paper also mentions that users approached with all three strategies showed comparatively higher engagement with authentic COVID information. The engagement was not limited to messages being played by the users and included users recording their own COVID content and engaging with and sharing credible content widely with their peers. Users adapted the platform to meet their specific informational, emotional, and instrumental needs.

Pictured above is a schematic for the user interface of Baang.
The findings highlight knowledge engagement as being more meaningful and relevant for information campaigns compared to user engagement with the platform and its features. Our work provides critical insights on how social media platforms can foster user engagement with credible content and, in doing so, makes two important contributions: (1) A six-month deployment of a voice-based social media platform in Pakistan, providing insights into how communities with low literacy rates engaged with credible health information during the COVID pandemic, (2) A mixed-methods analysis that evaluated the efficacy of three design strategies to foster user engagement with health information.
The hope is that through Baang, a major population from the global south, and especially the underserved communities within the Indo-Pak region can get reliable access to health information, navigating safely around the abyss of misinformation found in abundance across social media.
Reference
Agha Ali Raza, Mustafa Naseem, Namoos Hayat Qasmi, Shan Randhawa, Fizzah Malik, Behzad Taimur, Sacha St-Onge Ahmad, Sarojini Hirshleifer, Arman Rezaee and Aditya Vashistha, Fostering Engagement of Underserved Communities with Credible Health Information on Social Media. In Web4Good special track at TheWebConf 2022 (WWW'22), April 25 - 29, 2022, Lyon, France.

We are delighted to announce Dr. Naveed Arshad’s promotion to Full Professor with Tenure at SBASSE. Since joining in 2006, following his PhD from the University of Colorado, Dr. Arshad has made significant contributions to research, teaching, and service.
His work in energy informatics has been transformative, addressing challenges such as load forecasting, electricity theft detection, EV battery degradation, and floating solar photovoltaics. Published in esteemed journals like Renewable and Sustainable Energy Reviews and Energy Policy, his research has had a notable impact.
As founding director of the LUMS Energy Institute, Dr. Arshad has spearheaded initiatives tackling Pakistan’s energy issues, including the development of the first National Electric Vehicle Policy. His leadership at the National Centre for Big Data and Cloud Computing (NCBC) has promoted collaboration among universities nationwide.
Dr. Arshad’s tenure as Chair of the Computer Science Department (2014-2017) was marked by growth and innovation. In 2023, he received the Pride of Performance Medal from the President of Pakistan in recognition of his outstanding contributions.
Please join us in congratulating Dr. Naveed Arshad on this well-deserved achievement.
We are delighted to announce Dr. Naveed Arshad’s promotion to Full Professor with Tenure at SBASSE. Since joining in…

Saeed Boorboor is currently a Principal Research Scientist at the Center for Visual Computing at Stony Brook University, and is joining the University of Illinois Chicago as an Assistant Professor starting Fall 2025. He received my BS in Computer Science from the School of Science and Engineering, LUMS, Pakistan, and his Ph.D. in Computer Science from Stony Brook University, NY. His research seeks to design, build, and evaluate visualization systems that empower domain scientists to explore, analyze, and interact with scientific data, using methods of human-centered design, image processing, computer graphics, and applied AI. He is also interested in investigating novel visualization and interaction methods across immersive technologies -- from hand-held and wearable devices to large display modalities.
Saeed Boorboor is currently a Principal Research Scientist at the Center for Visual Computing at Stony Brook University, and is joining the University of Illinois Chicago as an Assistant Professor starting Fall 2025.

نصابی تعلیمات کو صنعت سے جوڑنے کے لیے لمز کی انڈرگریجویٹ تعلیم کے آخری سال میں ایک پروجیکٹ پر کام کرنا ہوتا ہے۔ عام طور پریہ دو سمسٹرس پرمشتمل ہوتا ہے لیکن اگر پروجیکٹ نامکمّل رہ جائے تواس سے زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ کمپیوٹر سائنس کے طلباء نے اس سال اپنے نگران، پروفیسر وقار احمد کے ساتھ بہت دلچسپ پروجیکٹس پر کام کیا ،جن کا سب سے بڑا مقصد صنعتی معیارسے ہم آہنگ سافٹ ویئر تخلیق کرنا تھا۔ طلباء نے چار سے پانچ افراد پر مشتمل 3 گروپوں میں اپنے عنوانات پر سوچ بچار شروع کی۔ انہوں نے اپنے خیالات وقار صاحب کے سامنے پیش کیے جنہوں نے ان کی رہنمائی کی اور انکے خیالات کو مزید نکھارا۔ پروجیکٹس کی تکمیل کے بعد طلباء نے سامعین کے سامنے اپنا کام پیش کیا اور انفرادی طور پرپروجیکٹ میں اپنے اپنے کردار کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
ایک گروپ نے مشہور زمانہ موبائل گیم سبوے سرفرز (١) کے طرز کی گیم بنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ گیم ڈویلپمنٹ (٢) کے موضوع پر لمز میں نہ ہی کوئی کورس پڑھایا جاتا ہے اور نہ ہمارا اس ابھرتی ہوئی صنعت کی طرف کچھ خاص رجحان ہے۔ ان کے خیال میں اس پر کام کرنا اپنی جگہ دشوار تو تھا کیوںکہ کافی تصورات انکے لیے نئےتھے، لیکن اسی وجہ سے انہیں کافی کچھ سیکھنے کو ملا اور ان کا پروجیکٹ اپنی جگہ ممتاز ٹھہرا۔ اس پروجیکٹ میں ماینڈ سٹارم اسٹوڈیوز (٣) نے بھی طلباء کو پیشہ ورانہ مدد فراہم کی۔
ایک دوسرے گروپ نے ایک ایسی اپلیکیشن بنائی جو سوشل میڈیا انفلونسرز سے رابطے کو آسان اور آٹومیٹک بنا دیتی ہے۔ مزید براں تیسرے اورآخری گروپ نے ایک خود مختار تجارتی بوٹ بنایا جس پہ اب ہم تفصیل سے بات کریں گے۔
جیسا کہ ہمیں معلوم ہے دنیا بھر میں تجارت کے لیے مختلف ایکسچینجز ہیں جیسے نیس ڈیک (٤) وغیرہ۔ اب تجارت میں کچھ خاص خاکے ہوتے ہیں اور اسی بنا پر اسٹاکس کی قیمتوں میں کمی یا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر ان خاکوں کو قواعد کے مجموعہ میں ڈال کر حساب کیا جائے تو اسے ایک بوٹ کے ذریے کنٹرول کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ اس سے تجارت کا عمل خود مختار ہو جاتا ہےاور زیادہ مؤثر اور منافع بخش بھی بن جاتا ہے کیونکہ بظاھر بوٹس انسانی دماغ سے زیادہ ڈیٹا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس ڈیٹا کے مطابق کیے گئے فیصلوں کے درست ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی انسان کا دن کے چوبیس گھنٹے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنا اور ترمیمی طریقے کے مطابق فیصلے کرنا ناممکن ہے جبکہ بوٹس کے ذریے یہ کام ہمہ وقت لیا جاسکتا ہے۔ دنیا کی مختلف ایکسچینجز کے لیے یہ بوٹس اب دستیاب ہیں اوراستعمال بھی ہو رہے ہیں لیکن پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کے لیے ایسا کوئی آلہ موجود نہیں۔
تیسرے گروپ نے اسی خلا کو پر کرنے کی کوشش کی اور پی ایس ایکس کے لیے ایک تجارتی بوٹ تخلیق کیا۔ انہوں نے پچھلے دو ماہ کا ڈیٹا حاصل کیا اور اس سے 15 دن بعد ہونے والی اسٹاک کی قیمتوں کی کامیاب پیشن گوئی کی۔اس سافٹ ویئر کی خوبصورت بات یہ ہے کے اسے بدلنا اور دوسرے ایکسچینجز یا سسٹمز پر ڈھالنا نہایت سہل ہے۔ فی الحال اسے پی ایس ایکس پر بنایا ہے لیکن اس کو بدل کرنیس ڈیک حتیٰ کے کرپٹو ایکسچینجزپر بھی بدلا جا سکتا ہے۔
ایک عام آدمی کا اسٹاک ایکسچینج پر تجارت کرنا اور اسے سمجھنا کافی دشوار ہے۔ اس بوٹ کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے اسٹاکس کی پیچیدہ منطق کوخودکارکر دیا جاتا ہے اور صارف کو ایک آسان انٹرفیس(٥) فراہم کیا جاتا ہے۔ اپنے پروجیکٹ کے لیے اس گروپ نے بزنس اسکول کے طلبا اور پروفیسر سر کمیل کے ساتھ بھی اشتراک کیا۔
تمام گروپس اپنے سپروائزر سر وقار سے خوش تھے اور ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک نہایت مفید اور یادگار تجربہ رہا۔

(1) Subway Surfers
(2) Game development
(3) Mind Storm Studios
(4) NASDAQ
(5) Interface

نصابی تعلیمات کو صنعت سے جوڑنے کے لیے لمز کی انڈرگریجویٹ تعلیم کے آخری سال میں ایک پروجیکٹ پر کام کرنا ہوتا ہے۔ عام طور…