The Department of Computer Science at LUMS offers a rigorous undergraduate education. Our goal is to deliver CS education that is at par or better than the world’s finest educational institutions. Our program not only prepares our students for careers in leading companies but also in carrying our world-class research. LUMS CS students have been consistently placed in leading companies across the world including Google, Microsoft, Facebook, and Amazon and receive fully-funded graduate admission offers from the most prestigious universities in the world including MIT, Stanford University, UC Berkeley, CMU, UIUC, UT Austin and many others. For the last many years we have had 100% success rate for graduate admissions and job placements. As CS education is important in many other disciplines, we believe in imparting broad-based education to our students. Thus, in addition to CS courses, the students could take as many as ten courses from other departments including Management, Economics, Law, Biology, Mathematics and others, thus broadening their horizon in multiple disciplines.
لمز سکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ میں پی ایچ ڈی کمپیوٹر سائنس…
لمز سکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ میں پی ایچ ڈی کمپیوٹر سائنس کی طالبہ عاطرہ انعم احمد کی شاندار تحقیق ، جو اس پریشانی کا حل تلاش کرنے میں معاونت فراہم کرتی ہے۔ عاطرہ نےحال ہی میں قابلِ تحسین تحقیقی نتائج کی بنیاد پر اپنے فائنل تھیسز کا کامیاب دفاع کیا۔
ہم جانتے ہیں کہ کمپیوٹرز ہارڈویئر اور سافٹ ویئر کا امتزاج ہیں ۔لیکن سافٹ ویئر انجینئرنگ1 کے مروجہ طریقے( جیسے کوڈ کا دوبارہ استعمال اور یکسانیت) سافٹ ویئر کے سائز ،پیچیدگی ، حفاظتی کمزوریوں اور خرابیوں کے امکانات میں نمایاں اضافہ کردیتے ہیں ۔ مزید برآں یہ طریقے سافٹ ویئر کی کارکردگی اور وثوق کوبھی کم کرتے ہیں۔ یہ صورتحال سافٹ ویئر بلوٹ2 کے مسئلے کا بنیادی سبب ہے، جو میموری3 میں وسائل کے ضیاع کا باعث بھی ہے۔
سافٹ ویئر بلوٹنگ کے عارضے کے تدارک کے لیے موجود ہ متعدد جدید ترین طریقہ کار کو بادی النظر میں دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جنھیں تحریری طور پر اعلیٰ سطحی تفصیلی تصریحات مثلاً ٹیسٹ کیسز 4 کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ طریقہ کار صارفین کے لیے بوجھل اور غیر موزوں ہو سکتے ہیں۔ دوسرے وہ طریقےہیں جو تشکیلاتی معلومات 5 واضح کرنے کے لیے سطر الامر دلائل (کمانڈ لائن آرگیومنٹس6 ) کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کوایپلی کیشن کے کوڈ میں مستقل 7 کے طور پر پھیلاتے ہیں اورڈیڈ کوڈ کو حذف کرتے ہیں جو مستقلات موجود ہونے پر عمل میں نہیں آتا ہے ۔
اس کےپیش نظر عاطرہ کی تحقیق مندرجہ ذیل نکات پر مرکوز ہے:
اول:تحقیق میں یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جدید ٹولز میں استعمال ہونے والے طریقہ کار، ڈیڈ کوڈ کے خاتمے کے معاملے میں غیر موثر ہیں ۔ کیونکہ وہ سیاق و سباق سے بے نیاز ہو کر کوڈ میں مستقل کو پھیلا دیتے ہیں۔ لہذا عاطرہ کے کام میں سیاق و سباق کی حساسیت پر مبنی خفیف مستقل پھیلاؤ 8 متعارف کرایا گیا ، جو صرف تشکیلاتی معلومات کے حامل متغیرات کے لیے مستقلات کی افزائش کرتا ہے ۔
دوم: جدید ٹولز جامد تشکیلاتی فائل9 سے قطع نظر یا توصرف سطر الامر دلائل10 پر انحصار کرتے ہیں یاایسی فائل سے نمٹنے کے لیے دستکارانہ طریقہ فراہم کرتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے خودکار فائل آئی /او تخصص11 کی تجویز پیش کی گئی ، یعنی، فائل میں جامد تشکیلاتی معلومات کوڈ میں مستقل کے طور پر اٹھائی جائے۔ یہ طریقہ کار فائل کا تجزیہ کرنے والے کوڈ کو آسان بناتا ہے اور ڈید کوڈ کو حذف کر دیتا ہے ۔
سوم: خود کار انداز سے کوڈ سائز میں کمی کے سلسلے میں تخصص کے فوائد دینے والےافعال کی نشاندہی کے لیےڈیپ لرننگ کے طریقے12 تجویز کیے گئے ہیں۔اس ضمن میں تخصص سے وابستہ افعال کی دو اقسام پر مبنی ایک تربیتی ڈیٹاسیٹ13 تیار کیا جائے گا ۔ صارف اپنے ماڈل کو اس ڈیٹاسیٹ پر تربیت دے کر ایپلی کیشنز میں قابل تخصیص اورنا قابل تخصیص افعال کی پیش گوئی کر سکیں گے۔
عاطرہ نے ٹرمر 14 پر سیاق و سباق کی خفیف حساسیت اور فائل آئی / او تخصص کو نافذ کیا ۔ انھوں نے 20 لینکس یوٹیلیٹیز 15 (بشمول جامد تشکیلاتی فائلز کے متقاضی چھے بینچ مارکس)پر اپنی مجوزہ سفارشات کو پرکھا ۔ یہ سفارشات ،سیاق و سباق کی حساسیت اور غیر حساسیت کے مقابلے میں، مشترکہ حفاظتی خطرات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ کوڈ کے سائز میں اوسطاً زیادہ کمی فراہم کرتی ہیں ۔
عاطرہ کے نزدیک پی ایچ ڈی آسان نہیں۔ یہ منصوبہ وقت طلب ہے۔ یہ صرف محنت یا ذہانت نہیں ہے بلکہ یہ کثیر تبادلہ خیال، مستقل مزاجی، وجوہات کی کھوج میں طویل اوقات کام کرنے، دباؤ محسوس کرنے، کئی بار ناکام ہونے اور دوبارہ کھڑے ہونے کے بارے میں ہے۔ بعض اوقات، آپ کو اپنی ذاتی ترجیحات، خاندان اور دوستوں کو نظر اندازبھی کرنا پڑتا ہے۔ الغرض صورت حال کچھ بھی ہو، اس سفر میں ثابت قدمی اور انتہائی بلند حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اپنے اس کامیاب سفر کے لیے لمز سکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ کےقابل اساتذہ ، معاون عملے اور حوصلہ افزا ساتھیوں کی تہہ دل سے مشکور ہیں۔ آج کل عاطرہ ایک پرائیوٹ یونیورسٹی میں لیکچرار کی خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔ وہ مستقبل میں شعبہ تعلیم سے وابستہ رہنے اور معیاری تحقیق شائع کرنے کی متمنی ہیں۔
- Software Engineering
- Software Bloat
- Computer Memory
- Test Cases
- Configuration Information
- Command-Line Arguments
- Constant
- Sparse Constant Propagation
- Static Configuration File
- Command Line Arguments
- Automated File I/O Specialization
- Deep Learning
- Training Dataset
- TRIMMER - a configuration-driven code debloating tool
- Linux Utilities
بلاشبہ ٹیکنالوجی انسانی زندگیوں میں آسانی، علم و ہنر میں ترقی…
بلاشبہ ٹیکنالوجی انسانی زندگیوں میں آسانی، علم و ہنر میں ترقی اور ترویج کا باعث ہے لیکن اس کے معاشرے میں بڑھتے مضر اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیا زبان زد عام مصنوعی ذہانت خصوصاً ڈیپ فیک کا منفی استعمال واقعی انسانی سوچ اور رویوں میں تبدیلی لا نے کی سکت رکھتا ہے؟ اس موضوع پر لمز میں جاری یہ تحقیق ۳ مرتبہ بین الا قوامی میٹا انٹیگرٹی ایوارڈ اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئی
اس کہانی کا آغاز سردیوں کی ایک دوپہر میں ہوا جب لمز کے تین ساتھی ،ڈاکٹر آغا علی رضا ، ڈاکٹر عائشہ علی، اور ڈاکٹر احسان ایوب قاضی اپنی اپنی تحقیق پر تبادلہ خیال کر رہے تھے ۔ ڈاکٹر عائشہ اور ڈاکٹر احسان نے ڈیجیٹل خواندگی اور گمراہ کن معلومات اور اطلاعات کے عوام پر اثرات سے متعلق اپنے کام کا ذکر کیا۔ اس دوران ڈاکٹر آغا نے اپنے ساتھیوں کو اپنا ایک سافٹ ویئر1 دکھایا جو تحریر کو تقریر میں بدلنے کی صلاحیت کا حامل تھا۔ انھوں نے اس تکنیک کے ذریعے تحریر کو ایک معروف ادبی شخصیت کی آواز میں منتقل کرکے اصل اور نقل کی پہچان کرانے کا تجربہ کیا تھا۔ یوں گفتگو کے دوران ان ساتھیوں کو مل کر کام کرنے کا خیال آیا اور باہمی مشاورت سے اس کام کو با ضابطہ تحقیق کے طور پر آگے بڑھانے کا عمل شروع ہوا ۔
سن ۲۰۱۹ء میں ڈاکٹر عائشہ اور ڈاکٹر احسان نے پہلی بار میٹا انٹیگرٹی ایوارڈ جیتا ۔ سن ۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۳ء میں اس انعام کی جیت اسی تحقیقی سلسلے کی اہم کڑی ہے ۔
۲۰۱۹ میں پیش کیے جانے والے کام کا بنیادی مقصد پاکستان کے لوگوں میں ڈیجیٹل خواندگی کو جانچنا اور تدریسی و تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کے لوگوں میں ممکنہ طور پر غلط معلومات اور اطلاعات کی شناخت کی صلاحیت کو بہتر بنانا تھا۔ ڈاکٹر عائشہ کے مطابق ایسی افواہوں اور معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نشریاتی پابندیوں کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس لائحہ عمل کے برعکس ان کی توجہ صارفین کو ذی شعور اور صاحب فہم و ادراک بنانے پر مرکوز رہی۔ اس ضمن میں ایک ہزار گھرانوں کا انتخاب کر کے آر سی ٹی ٹیسٹ کیےگئے۔ ڈیجیٹل خواندگی کو جانچنے اور مختلف عوامل کے حقیقی محرکات کا، اتفاقات کی بجاۓ عملی شواہد کی بنیاد پر ،تعین کرنے کے لیے بنیادی طور پر مقداری تشخیص2 کا استعمال کیا گیا ۔ صنف ، آمدنی ، اور عمر کے ڈیجیٹل خواندگی اور گمراہ کن معلومات کی صلاحیتِ نشاندہی پر اثرات سے متعلق تجزیہ کیا گیا۔ نیز رویوں سے متعلق ڈیجیٹل گیمز کے ذریعے حقائق کی پڑتال کے لیے موجود خدمات3 کی طلب میں کمی یا بیشی پر کیفیاتی تجزیات بھی کیے گئے۔ اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ لوگوں میں ڈیجیٹل خواندگی میں کمی ان کے گمراہ کن معلومات سے متاثر ہونے کے امکانات سے براہ راست نسبت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر آغا کی ٹیم میں شمولیت کے بعد اس تحقیقی سلسلے کو تکنیکی تناظر میں مزید آگے بڑھایا گیا۔ ۲۰۲۰ میں پیش کی جانے والی سفارشات میں گمراہ کن معلومات خصوصاً ڈیپ فیک4 کے لوگوں کے رویوں پر اثرات کو پرکھنا، انکے سیاسی نظریات کے بدلاؤ اور معاشرتی تقطیب5 میں ایسی معلومات کے کردار کی تصدیق کرنا ،شامل تھا۔ اس تحقیق کے نتائج سے گمراہ کن معلومات کے ابتدائی و ارتقائی عوامل کی شناخت اور انسانی رویوں پر اس کی قوت اثر واضح ہو گئی ۔ اب اگلا قدم صارفین کو ایسی ضرر رساں یا گمراہ کن معلومات کی نشاندہی کے لیے با صلاحیت بنانا تھا۔
۲۰۲۳ میں اس ایوارڈ کا محور موثر قیمت اور قابل افزائش ڈیجیٹل تدریسی سفارشات کی تشکیل ہے جوعام صارفین میں ڈیجیٹل خواندگی کو بہتر بنا سکیں ۔ڈاکٹر آغا کے مطابق اس ضمن میں ٹیم کے پیش نظر دشوار امر یہ ہے کہ جب لوگوں میں ڈیپ فیک اور اس سے منسوب تدلیس و تلبیس کا شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو عموماً وہ صحیح چیز کو پہچاننے میں بھی تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہر چیز کو ہی غلط سمجھنے لگتے ہیں۔ اس طرح بجائے فائدے کے ، الٹا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔
لوگوں کو با شعور بنانے کی یہ کاوش ترقی پذیر ممالک کی کم ڈیجیٹلی خواندہ آبادی پر مرکوز ہے۔ حکمت عملی کے تحت مستند اور معتبر ذرائع سے نشان زدہ معلومات کا استعمال کر کے تین بنیادی مقاصد کے حصول کے لیے کام کیا جائے گا۔
ان میں (ا) جعلی معلومات کی نشاندہی کے طریقے بتانا، (ب) جذباتی اور اشتعال انگیز مواد تخلیق کرنے کی تراکیب سے آشنا کرنا، اور (ج) معلومات کی پڑتال کے لیے موجودہ اداروں اور ان کی خدمات سے مستفید ہونے کا ہنر سکھانا شامل ہیں ۔ یہاں گیمز کے استعمال کا مقصد صارفین کی توجہ کا حصول ہے۔ اس تحقیق کے نتائج کو ماپنے کے لیے صحیح اور غلط کی نشاندہی کی صلاحیت اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی پر تجزیہ کیا جائے گا۔
مزید برآں اس تحقیق میں پہلے سے موجود مماثل سرگرمیوں اور سفارشات کا تقابلی جائزہ بھی لیا جائے گا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایسا فریم ورک تیار کیا جائے گا جو ڈیجیٹل گیمز سے استفادہ کرتے ہوئے ان سفارشات کا موازنہ کر سکے اور ان کی تاثیر کو عملی طور پر جانچ سکے ۔ یہ کام چونکہ صارفین اور انکے رویوں سے متعلق ہے لہذا معاشرتی سیاق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ جائزہ حکومتی فیصلہ سازی کی سطح پر بہتر حکمت عملی کی تیاری اور نفاذ میں بے حد مدد گار ثابت ہو گا۔ ٹیم کا خواب اور عزم ہے کہ مستقبل میں اس تحقیق سے ایسی معیاری سفارشات جنم لیں جنھیں آنے والے دنوں میں نصاب کا حصہ بنایا جا سکے۔
۲۰۲۳ میٹا ایوارڈ کے لیے دنیا بھر کی ۳۹۴ یونیورسٹیوں سے موصول ہونے والی ۵۰۴ درخواستوں میں سے محض ۹ کامیاب ہو ئیں۔ ڈاکٹر احسان کے مطابق ایک مسابقتی پیشکش6 میں بہت سی باتیں اہم ہیں ۔ ان میں زیر غور مسئلہ کے حقیقی مقاصد و اہمیت ، شدت و اثرات، سیاق و سباق ، حوالہ متن ، ماہرانہ حکمت عملی اور سرمایہ کار ادارے کی پیشکش کے مقاصد میں دلچسپی و ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ قابل، باصلاحیت،ہم خیال اور سرگرم کثیر الشعبہ ٹیم کی موجودگی نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر احسان اور انکی ٹیم کی نظر میں لمز میں اساتذہ اور محققین کو ملنے والی آزادی وقت ، حمایتی لوگ اور معاون نظام ان کی گُونا گُوں کامیابیوں کی بنیاد ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ علی لمز شعبہ معاشیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور توانائی، انفارمیشن معاشیات اور سیاسی معاشیات میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر آغا علی رضالمز سکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں اسسٹنٹ پروفیسر اور سینٹر فار سپیچ اینڈ لینگویج ٹیکنالوجیز7 کے بانی ہیں ۔
ڈاکٹر احسان ایوب قاضی لمز سکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور گمراہ کن معلومات کی روک تھام ، ڈیجیٹل ترقی ، کلاؤڈ /ایج کمپیوٹنگ 8 اورٹیکنالوجی و منصوبہ سازی کے تعامُل پر تحقیق کرتے ہیں۔
- Software
- Quantitative Evaluation
- Fact checking services
- Deep Fake
- Polarization
- Competitive Proposal
- Center for Speech and Language Technologies (CSaLT)
- Cloud/Edge Computing
There’s no doubt that social media is a microcosm of information, that covers a great swath of…
There’s no doubt that social media is a microcosm of information, that covers a great swath of topics. Tweets and touts relaying public policy, to messages that have been forwarded many times spreading misinformation regarding something as serious as COVID-19. The landscape of social media is fertile for the growth and spread of both correct and incorrect information. However, healthcare is a serious issue and laying down a misinformation mine can prove fatal in some cases. Therefore, researchers at SBASSE have created Baang – a digital platform where you use your voice to access reliable healthcare advice!
But why develop a voice-based service? Over the last two decades, voice-based social media platforms have been enabling people who are poor, remote, and low-literate to still get the benefits of the Internet. These platforms allow users to call toll-free phone numbers to record voice messages in their local language and listen to and react to messages recorded by others. Mobile Vaani connects over five million people to infotainment in the media-dark regions in India and CGNet Swara enables rural communities to listen to local news and report grievances. The paper outlines the need for creating a new, versatile application experience. Many scholars have examined the vital role that mainstream social media plays during crises and disasters, for example, by establishing rapid and direct communication channels from authorities, providing support and information to people in need, and bringing to light the challenges on the ground. However, there is a scarcity of research on how voice-based social media platforms are used during public health emergencies by users who are predominantly low-literate and low-income.
To fill this gap, the research team examined three strategies to foster engagement with and dissemination of trusted information: (1) encourage users to access a curated list of approved health guidelines, (2) provide them incentives to engage with and propagate trusted COVID content, and (3) prompt them to reflect on their COVID-related information behaviors. Over a six-month deployment, the platform received around half a million calls from 12,000 users, who were predominately low-literate, low-income men from across Pakistan, with 96% having less than ten years of education. These users recorded over 35,000 audio posts, played them over 2.4 million times, voted on them 322,000 times, and shared them with other users over 130,000 times. The paper also mentions that users approached with all three strategies showed comparatively higher engagement with authentic COVID information. The engagement was not limited to messages being played by the users and included users recording their own COVID content and engaging with and sharing credible content widely with their peers. Users adapted the platform to meet their specific informational, emotional, and instrumental needs.
Pictured above is a schematic for the user interface of Baang.
The findings highlight knowledge engagement as being more meaningful and relevant for information campaigns compared to user engagement with the platform and its features. Our work provides critical insights on how social media platforms can foster user engagement with credible content and, in doing so, makes two important contributions: (1) A six-month deployment of a voice-based social media platform in Pakistan, providing insights into how communities with low literacy rates engaged with credible health information during the COVID pandemic, (2) A mixed-methods analysis that evaluated the efficacy of three design strategies to foster user engagement with health information.
The hope is that through Baang, a major population from the global south, and especially the underserved communities within the Indo-Pak region can get reliable access to health information, navigating safely around the abyss of misinformation found in abundance across social media.
Reference
Agha Ali Raza, Mustafa Naseem, Namoos Hayat Qasmi, Shan Randhawa, Fizzah Malik, Behzad Taimur, Sacha St-Onge Ahmad, Sarojini Hirshleifer, Arman Rezaee and Aditya Vashistha, Fostering Engagement of Underserved Communities with Credible Health Information on Social Media. In Web4Good special track at TheWebConf 2022 (WWW'22), April 25 - 29, 2022, Lyon, France.
Dependency can lead to complacency. The craving to extract oil is partly derived from its…
Dependency can lead to complacency. The craving to extract oil is partly derived from its incessant need in our industrial sector. Most of the moving parts involved post industrial revolution need some form of fuel, extracted from oil. The cries of scientists from the 1980s fell on partly deaf ears, when they warned of oil scarcity, but the short-term economic benefit of ‘black gold’ was to decapitate our vision for the long term.
Many years later, the question remains still: what will be the alternate when the world runs out of oil? Fortunately, scientists who foresaw this predicament began to work on solutions that may help steer our direction to a more sustainable, renewable resource. One of the products of this enterprise were the birth of electric vehicles (EVs). These machines with futuristic, cyber-punk aesthetics come in all sizes and shapes and appeal to a wide variety of the demography. Some claim them to be a game-changer for the transport industry. Today, electric cars and their charging ports can be seen more frequently in big cities like Lahore, Karachi, and Islamabad. However, like all emerging technologies, electric vehicles come with their own challenges.
Needless to say, that an electric vehicle run on batteries that store charge. With developments in battery technology, efforts have borne fruit to make them more power and cost effective. Still, the high costs of EVs make it a less attractive competitor to traditional gasoline-run cars. Moreover, the lifespan of the batteries installed in EVs are limited, which adds to the already high cost of producing (and owning!) one. Additionally, the reliability of these installed batteries needs to be improved to make charging efficient. Afterall, they compete with a most environmentally unfriendly entity - oil! It is at this junction of reliability on battery technology, and the efforts to understand their health deterioration, that we meet science superheroes from within SBASSE.
Mr. Huzaifa Rauf from the Department of Electrical Engineering, along with Dr. Naveed Arshad from the Department of Computer Science, at SBASSE, are utilizing machine learning to understand and possibly help reduce these problems around EV batteries. The team’s research is focused on lithium-ion batteries, since they are the most advanced and much-sought batteries used in EVs. Mr. Rauf’s team has used multiple machine learning methods to model parameters to understand how a battery degrades. State-of-health and remaining-useful-life are the most important parameters determining a battery’s reliability and lifespan. The team’s primary research objective is determining which machine learning method best models the battery degradation model of lithium-ion batteries. Hence, they presented battery degradation model in several machine learning methods and algorithms. The results of these models were presented to compare their accuracy, and ability to handle the complex data.
These models can also reduce the strain on laboratory-based methods for understanding battery health degradation and produce results faster. This research presented by Mr. Rauf’s team is still at its early stages. However, such tools are elemental to understand battery health and reliability, which will enable the vast use of electric vehicles.
Their most recent paper highlighting this work was published in the journal Renewable and Sustainable Energy Reviews, a 15.0 impact factor journal. We congratulate them on such a tremendous achievement and wish them best of fortune in their future work.
Reference
Huzaifa Rauf, Muhammad Khalid, Naveed Arshad, Machine learning in state of health and remaining useful life estimation: Theoretical and technological development in battery degradation modelling, Renewable and Sustainable Energy Reviews, Volume 156, 2022, 111903, ISSN 1364-0321, https://doi.org/10.1016/j.rser.2021.111903.
We are delighted to announce that Dr. Agha Ali Raza has been promoted to the rank of Associate Professor with Tenure in the Syed Babar Ali School of Science and Engineering.
Dr. Raza completed his PhD from the School of Computer Science at Carnegie Mellon University in 2015. He joined LUMS as an Assistant Professor (tenure-track) in January 2020, following his tenure as an Assistant Professor at Information Technology University, Lahore, from 2015 to 2019.
Dr. Raza’s research spans speech and natural language processing and machine learning, with a focus on enhancing IT access for underserved and offline populations. His work includes the development of practical, speech-based service systems accessible via phones. Dr. Raza serves as an Associate Editor for the ACM Journal on Computing and Sustainable Societies and has been a member of organising committees for top conferences in his field. As a teacher, his innovative use of the flipped classroom model has fostered student engagement, and he has actively contributed to several School and University committees.
Please join us in congratulating Dr. Raza on this significant achievement and in wishing him continued success at LUMS!
We are delighted to announce that Dr. Agha Ali Raza has been…
Join us for an exclusive event featuring Prof. Michael Pecht, a distinguished academic and Professional Engineer with an illustrious educational background. Prof. Pecht holds a BS in Physics, MS in Electrical Engineering, and both a MS and PhD in Engineering Mechanics from the University of Wisconsin.With over 50,000 citations and an H-Index above 100, Prof. Pecht has earned recognition in his field. He is a Fellow of prestigious societies such as IEEE, ASME, SAE, and IMAPS. Additionally, he has contributed to three U.S. National Academy of Science studies and participated in two U.S. Congressional Investigations in automotive safety. Currently serving as the Director of CALCE and a Distinguished Professor at the University of Maryland, Prof. Pecht is known for his groundbreaking contributions in AI-based prognostics for electronics. His outstanding achievements have garnered him accolades such as the IEEE Lifetime Achievement Award.
Don't miss the opportunity to hear from this distinguished expert!
Register now to secure your spot and gain insights from Prof. Michael Pecht's wealth of knowledge and experience.
Join us for an exclusive event featuring Prof. Michael Pecht, a distinguished academic and Professional Engineer with an illustrious educational background. Prof.
نصابی تعلیمات کو صنعت سے جوڑنے کے لیے لمز کی انڈرگریجویٹ تعلیم کے آخری سال میں ایک پروجیکٹ پر کام کرنا ہوتا ہے۔ عام طور پریہ دو سمسٹرس پرمشتمل ہوتا ہے لیکن اگر پروجیکٹ نامکمّل رہ جائے تواس سے زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ کمپیوٹر سائنس کے طلباء نے اس سال اپنے نگران، پروفیسر وقار احمد کے ساتھ بہت دلچسپ پروجیکٹس پر کام کیا ،جن کا سب سے بڑا مقصد صنعتی معیارسے ہم آہنگ سافٹ ویئر تخلیق کرنا تھا۔ طلباء نے چار سے پانچ افراد پر مشتمل 3 گروپوں میں اپنے عنوانات پر سوچ بچار شروع کی۔ انہوں نے اپنے خیالات وقار صاحب کے سامنے پیش کیے جنہوں نے ان کی رہنمائی کی اور انکے خیالات کو مزید نکھارا۔ پروجیکٹس کی تکمیل کے بعد طلباء نے سامعین کے سامنے اپنا کام پیش کیا اور انفرادی طور پرپروجیکٹ میں اپنے اپنے کردار کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
ایک گروپ نے مشہور زمانہ موبائل گیم سبوے سرفرز (١) کے طرز کی گیم بنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ گیم ڈویلپمنٹ (٢) کے موضوع پر لمز میں نہ ہی کوئی کورس پڑھایا جاتا ہے اور نہ ہمارا اس ابھرتی ہوئی صنعت کی طرف کچھ خاص رجحان ہے۔ ان کے خیال میں اس پر کام کرنا اپنی جگہ دشوار تو تھا کیوںکہ کافی تصورات انکے لیے نئےتھے، لیکن اسی وجہ سے انہیں کافی کچھ سیکھنے کو ملا اور ان کا پروجیکٹ اپنی جگہ ممتاز ٹھہرا۔ اس پروجیکٹ میں ماینڈ سٹارم اسٹوڈیوز (٣) نے بھی طلباء کو پیشہ ورانہ مدد فراہم کی۔
ایک دوسرے گروپ نے ایک ایسی اپلیکیشن بنائی جو سوشل میڈیا انفلونسرز سے رابطے کو آسان اور آٹومیٹک بنا دیتی ہے۔ مزید براں تیسرے اورآخری گروپ نے ایک خود مختار تجارتی بوٹ بنایا جس پہ اب ہم تفصیل سے بات کریں گے۔
جیسا کہ ہمیں معلوم ہے دنیا بھر میں تجارت کے لیے مختلف ایکسچینجز ہیں جیسے نیس ڈیک (٤) وغیرہ۔ اب تجارت میں کچھ خاص خاکے ہوتے ہیں اور اسی بنا پر اسٹاکس کی قیمتوں میں کمی یا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر ان خاکوں کو قواعد کے مجموعہ میں ڈال کر حساب کیا جائے تو اسے ایک بوٹ کے ذریے کنٹرول کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ اس سے تجارت کا عمل خود مختار ہو جاتا ہےاور زیادہ مؤثر اور منافع بخش بھی بن جاتا ہے کیونکہ بظاھر بوٹس انسانی دماغ سے زیادہ ڈیٹا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس ڈیٹا کے مطابق کیے گئے فیصلوں کے درست ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی انسان کا دن کے چوبیس گھنٹے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنا اور ترمیمی طریقے کے مطابق فیصلے کرنا ناممکن ہے جبکہ بوٹس کے ذریے یہ کام ہمہ وقت لیا جاسکتا ہے۔ دنیا کی مختلف ایکسچینجز کے لیے یہ بوٹس اب دستیاب ہیں اوراستعمال بھی ہو رہے ہیں لیکن پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کے لیے ایسا کوئی آلہ موجود نہیں۔
تیسرے گروپ نے اسی خلا کو پر کرنے کی کوشش کی اور پی ایس ایکس کے لیے ایک تجارتی بوٹ تخلیق کیا۔ انہوں نے پچھلے دو ماہ کا ڈیٹا حاصل کیا اور اس سے 15 دن بعد ہونے والی اسٹاک کی قیمتوں کی کامیاب پیشن گوئی کی۔اس سافٹ ویئر کی خوبصورت بات یہ ہے کے اسے بدلنا اور دوسرے ایکسچینجز یا سسٹمز پر ڈھالنا نہایت سہل ہے۔ فی الحال اسے پی ایس ایکس پر بنایا ہے لیکن اس کو بدل کرنیس ڈیک حتیٰ کے کرپٹو ایکسچینجزپر بھی بدلا جا سکتا ہے۔
ایک عام آدمی کا اسٹاک ایکسچینج پر تجارت کرنا اور اسے سمجھنا کافی دشوار ہے۔ اس بوٹ کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے اسٹاکس کی پیچیدہ منطق کوخودکارکر دیا جاتا ہے اور صارف کو ایک آسان انٹرفیس(٥) فراہم کیا جاتا ہے۔ اپنے پروجیکٹ کے لیے اس گروپ نے بزنس اسکول کے طلبا اور پروفیسر سر کمیل کے ساتھ بھی اشتراک کیا۔
تمام گروپس اپنے سپروائزر سر وقار سے خوش تھے اور ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک نہایت مفید اور یادگار تجربہ رہا۔
(1) Subway Surfers
(2) Game development
(3) Mind Storm Studios
(4) NASDAQ
(5) Interface
نصابی تعلیمات کو صنعت سے جوڑنے کے لیے لمز کی انڈرگریجویٹ تعلیم کے آخری سال میں ایک پروجیکٹ پر کام کرنا ہوتا ہے۔ عام طور…