ڈیپ فیک : فہم یا وہم
بلاشبہ ٹیکنالوجی انسانی زندگیوں میں آسانی، علم و ہنر میں ترقی اور ترویج کا باعث ہے لیکن اس کے معاشرے میں بڑھتے مضر اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیا زبان زد عام مصنوعی ذہانت خصوصاً ڈیپ فیک کا منفی استعمال واقعی انسانی سوچ اور رویوں میں تبدیلی لا نے کی سکت رکھتا ہے؟ اس موضوع پر لمز میں جاری یہ تحقیق ۳ مرتبہ بین الا قوامی میٹا انٹیگرٹی ایوارڈ اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئی
اس کہانی کا آغاز سردیوں کی ایک دوپہر میں ہوا جب لمز کے تین ساتھی ،ڈاکٹر آغا علی رضا ، ڈاکٹر عائشہ علی، اور ڈاکٹر احسان ایوب قاضی اپنی اپنی تحقیق پر تبادلہ خیال کر رہے تھے ۔ ڈاکٹر عائشہ اور ڈاکٹر احسان نے ڈیجیٹل خواندگی اور گمراہ کن معلومات اور اطلاعات کے عوام پر اثرات سے متعلق اپنے کام کا ذکر کیا۔ اس دوران ڈاکٹر آغا نے اپنے ساتھیوں کو اپنا ایک سافٹ ویئر1 دکھایا جو تحریر کو تقریر میں بدلنے کی صلاحیت کا حامل تھا۔ انھوں نے اس تکنیک کے ذریعے تحریر کو ایک معروف ادبی شخصیت کی آواز میں منتقل کرکے اصل اور نقل کی پہچان کرانے کا تجربہ کیا تھا۔ یوں گفتگو کے دوران ان ساتھیوں کو مل کر کام کرنے کا خیال آیا اور باہمی مشاورت سے اس کام کو با ضابطہ تحقیق کے طور پر آگے بڑھانے کا عمل شروع ہوا ۔
سن ۲۰۱۹ء میں ڈاکٹر عائشہ اور ڈاکٹر احسان نے پہلی بار میٹا انٹیگرٹی ایوارڈ جیتا ۔ سن ۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۳ء میں اس انعام کی جیت اسی تحقیقی سلسلے کی اہم کڑی ہے ۔
۲۰۱۹ میں پیش کیے جانے والے کام کا بنیادی مقصد پاکستان کے لوگوں میں ڈیجیٹل خواندگی کو جانچنا اور تدریسی و تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کے لوگوں میں ممکنہ طور پر غلط معلومات اور اطلاعات کی شناخت کی صلاحیت کو بہتر بنانا تھا۔ ڈاکٹر عائشہ کے مطابق ایسی افواہوں اور معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نشریاتی پابندیوں کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس لائحہ عمل کے برعکس ان کی توجہ صارفین کو ذی شعور اور صاحب فہم و ادراک بنانے پر مرکوز رہی۔ اس ضمن میں ایک ہزار گھرانوں کا انتخاب کر کے آر سی ٹی ٹیسٹ کیےگئے۔ ڈیجیٹل خواندگی کو جانچنے اور مختلف عوامل کے حقیقی محرکات کا، اتفاقات کی بجاۓ عملی شواہد کی بنیاد پر ،تعین کرنے کے لیے بنیادی طور پر مقداری تشخیص2 کا استعمال کیا گیا ۔ صنف ، آمدنی ، اور عمر کے ڈیجیٹل خواندگی اور گمراہ کن معلومات کی صلاحیتِ نشاندہی پر اثرات سے متعلق تجزیہ کیا گیا۔ نیز رویوں سے متعلق ڈیجیٹل گیمز کے ذریعے حقائق کی پڑتال کے لیے موجود خدمات3 کی طلب میں کمی یا بیشی پر کیفیاتی تجزیات بھی کیے گئے۔ اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ لوگوں میں ڈیجیٹل خواندگی میں کمی ان کے گمراہ کن معلومات سے متاثر ہونے کے امکانات سے براہ راست نسبت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر آغا کی ٹیم میں شمولیت کے بعد اس تحقیقی سلسلے کو تکنیکی تناظر میں مزید آگے بڑھایا گیا۔ ۲۰۲۰ میں پیش کی جانے والی سفارشات میں گمراہ کن معلومات خصوصاً ڈیپ فیک4 کے لوگوں کے رویوں پر اثرات کو پرکھنا، انکے سیاسی نظریات کے بدلاؤ اور معاشرتی تقطیب5 میں ایسی معلومات کے کردار کی تصدیق کرنا ،شامل تھا۔ اس تحقیق کے نتائج سے گمراہ کن معلومات کے ابتدائی و ارتقائی عوامل کی شناخت اور انسانی رویوں پر اس کی قوت اثر واضح ہو گئی ۔ اب اگلا قدم صارفین کو ایسی ضرر رساں یا گمراہ کن معلومات کی نشاندہی کے لیے با صلاحیت بنانا تھا۔
۲۰۲۳ میں اس ایوارڈ کا محور موثر قیمت اور قابل افزائش ڈیجیٹل تدریسی سفارشات کی تشکیل ہے جوعام صارفین میں ڈیجیٹل خواندگی کو بہتر بنا سکیں ۔ڈاکٹر آغا کے مطابق اس ضمن میں ٹیم کے پیش نظر دشوار امر یہ ہے کہ جب لوگوں میں ڈیپ فیک اور اس سے منسوب تدلیس و تلبیس کا شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو عموماً وہ صحیح چیز کو پہچاننے میں بھی تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہر چیز کو ہی غلط سمجھنے لگتے ہیں۔ اس طرح بجائے فائدے کے ، الٹا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔
لوگوں کو با شعور بنانے کی یہ کاوش ترقی پذیر ممالک کی کم ڈیجیٹلی خواندہ آبادی پر مرکوز ہے۔ حکمت عملی کے تحت مستند اور معتبر ذرائع سے نشان زدہ معلومات کا استعمال کر کے تین بنیادی مقاصد کے حصول کے لیے کام کیا جائے گا۔
ان میں (ا) جعلی معلومات کی نشاندہی کے طریقے بتانا، (ب) جذباتی اور اشتعال انگیز مواد تخلیق کرنے کی تراکیب سے آشنا کرنا، اور (ج) معلومات کی پڑتال کے لیے موجودہ اداروں اور ان کی خدمات سے مستفید ہونے کا ہنر سکھانا شامل ہیں ۔ یہاں گیمز کے استعمال کا مقصد صارفین کی توجہ کا حصول ہے۔ اس تحقیق کے نتائج کو ماپنے کے لیے صحیح اور غلط کی نشاندہی کی صلاحیت اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی پر تجزیہ کیا جائے گا۔
مزید برآں اس تحقیق میں پہلے سے موجود مماثل سرگرمیوں اور سفارشات کا تقابلی جائزہ بھی لیا جائے گا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایسا فریم ورک تیار کیا جائے گا جو ڈیجیٹل گیمز سے استفادہ کرتے ہوئے ان سفارشات کا موازنہ کر سکے اور ان کی تاثیر کو عملی طور پر جانچ سکے ۔ یہ کام چونکہ صارفین اور انکے رویوں سے متعلق ہے لہذا معاشرتی سیاق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ جائزہ حکومتی فیصلہ سازی کی سطح پر بہتر حکمت عملی کی تیاری اور نفاذ میں بے حد مدد گار ثابت ہو گا۔ ٹیم کا خواب اور عزم ہے کہ مستقبل میں اس تحقیق سے ایسی معیاری سفارشات جنم لیں جنھیں آنے والے دنوں میں نصاب کا حصہ بنایا جا سکے۔
۲۰۲۳ میٹا ایوارڈ کے لیے دنیا بھر کی ۳۹۴ یونیورسٹیوں سے موصول ہونے والی ۵۰۴ درخواستوں میں سے محض ۹ کامیاب ہو ئیں۔ ڈاکٹر احسان کے مطابق ایک مسابقتی پیشکش6 میں بہت سی باتیں اہم ہیں ۔ ان میں زیر غور مسئلہ کے حقیقی مقاصد و اہمیت ، شدت و اثرات، سیاق و سباق ، حوالہ متن ، ماہرانہ حکمت عملی اور سرمایہ کار ادارے کی پیشکش کے مقاصد میں دلچسپی و ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ قابل، باصلاحیت،ہم خیال اور سرگرم کثیر الشعبہ ٹیم کی موجودگی نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر احسان اور انکی ٹیم کی نظر میں لمز میں اساتذہ اور محققین کو ملنے والی آزادی وقت ، حمایتی لوگ اور معاون نظام ان کی گُونا گُوں کامیابیوں کی بنیاد ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ علی لمز شعبہ معاشیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور توانائی، انفارمیشن معاشیات اور سیاسی معاشیات میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر آغا علی رضالمز سکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں اسسٹنٹ پروفیسر اور سینٹر فار سپیچ اینڈ لینگویج ٹیکنالوجیز7 کے بانی ہیں ۔
ڈاکٹر احسان ایوب قاضی لمز سکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور گمراہ کن معلومات کی روک تھام ، ڈیجیٹل ترقی ، کلاؤڈ /ایج کمپیوٹنگ 8 اورٹیکنالوجی و منصوبہ سازی کے تعامُل پر تحقیق کرتے ہیں۔
- Software
- Quantitative Evaluation
- Fact checking services
- Deep Fake
- Polarization
- Competitive Proposal
- Center for Speech and Language Technologies (CSaLT)
- Cloud/Edge Computing