Post Date
Jun 5 2023

محنت اور امید کا سفر؛ ایک کینسر تحقیق کار کی کہانی

Authors
زینب جواد خان

حالیہ دور میں جہاں انسانوں کو بہت سی جان لیوا بیماریوں کا سامنا ہے وہیں کینسر جیسا موذی مرض سر فہرست ہے۔ کینسر ایک ایسی خطر ناک بیماری ہے جو انسانی جسم میں موجود ڈی این اے میں تبدیلی کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں غیر ضروری اور غیر معمولی خلیوں کے جتھے کے جتھے تشکیل پاتےہیں جو بعد میں ٹیومر کی شکل اختیار کر کے پورے جسم  میں پھیل جاتے ہیں

 

i
جسم میں موجود کینسر کی خلیاں

 

 دنیا بھر میں ہر سال کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے والے اور اس کی وجہ سے جان کی بازی ہارنے والے افراد کی تعداد تشویشناک ہے۔ اس سے قبل کینسر کے شعبے میں لا علمی اور محدود شعور کے باعث اس مہلک مرض میں مبتلا ہونے والا شخص جینے کی تمام امیدیں کھو بیٹھتا تھا ۔ لیکن موجودہ دور میں کینسر کے علاج سے متعلق اہم پیشرفت سامنے آئی ہے جس سے کینسر کے مریضوں کی زندگی میں امید کی نئی کرن روشن ہوئی ہے۔
اس حوالے سے مزید جاننے کے لئے ہم نے ماہر کینسر تحقیق ڈاکٹر عمر خالد کا انٹرویو کیا۔ ڈاکٹر عمر خالد نے پنجاب یونیورسٹی کے مائیکروبائیولوجی اور جینیٹکس کے ڈیپارٹمنٹ سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ۶۰۱۴ میں لمز یونیورسٹی کے ماسٹرز پروگرام میں داخلہ لیا۔ یہاں آپ دو سال تک حیاتیات شعبے سے منسلک رہے جہاں آپ کا شمار تعلیمی فضیلت پانے والے طلبہ میں ہوتا تھا اور اس کے بعد دیگر اساتذۃ کے ساتھ ایک سال تک آپ نے تحقیقی اور تدریسی معاون کی خدمات سر انجام دیں۔

اسی دوران آپ کو دنیا کے نامور کینسر تحقیق سینٹر سے پی ایچ ڈی کی آفر آئی جہاں سے آپ نے کینسر کے شعبے میں تین سال میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی۔ بعد اذاں ڈاکٹر عمر کو ہارورڈ میڈیکل اسکول کے دانا فاربر کینسر انسٹی ٹیوٹ میں بطور کینسر تحقیق سائنس دان کام شروع کرنے کا موقع مل گیا۔

 

o
بوسٹن میں موجود دانا فاربر کینسر مرکز

 

ڈاکٹر عمر سے گفتگو کے دوران ہمیں ان کے کام کی نوعیت کا بخوبی اندازہ ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بطور کینسر کار ، وہ ایسی جدید تحقیق پر کام کر رہے ہیں جس سے کینسر جیسے مرض کے علاج کو قابلِ عمل بنایا جا سکے ۔ ان کا مقصد مختلف مریضوں میں کینسر کی پیشرفت کو سمجھنا، کینسر علامات کی شناخت کرنے کے بعد ہر انفرادی کیس کو زیر غور رکھتے ہوئے منفرد اور اثر انگیز تراکیب اور اقدامات کو تجویز دینا ہے جس سے کینسر کے مرض کا پھیلاؤ  نہ صرف تھم جائے بلکہ یہ مکمل طور پر جسم سے خارج بھی ہو جائے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ان کے پی ایچ ڈی پروجیکٹ کا موضوع ایسی منفرد علاجی تراکیب تشکیل دینا تھا جو دماغ کے کینسر میں مبتلا لوگوں کو کم ترین مضر اثرات کے ساتھ شفا دے سکے ۔ اس حوالے سے انھوں نے اہم کامیابی تب حاصل کی جب انہوں نے دو ایسی ادویات کے فارمولے تیار کیے جو اس مقصد میں نہایت کارگر ثابت ہوئیں۔

 

u
دماغ میں موجود ٹیومر

 

جب ہم نے ڈاکٹر خالد سے پوچھا کے کینسر کے متعلق تحقیق کا اشتیاق کیسے پیدا ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ خیال سب سے پہلے ان کے ذہن میں تب پیدا ہوا جب انھوں نے پہلی بار لمز میں ڈاکٹر امیر فیصل کے ساتھ سیل سگنلنگ کا کورس لیا جس میں خلیوں کے درمیان رابطوں کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ ریسرچ تحقیقی معاونت کے دوران رونما ہونے والے سوالات اور ان کے جوابات حاصل کرنے کی جستجو نے ان کے اندر ایک نیا جذبہ پیدا کیا۔

مزید یہ  کہ لمز کے اساتذہ نے ان کی کامیابی کی کہانی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ لمز میں موجود ڈاکٹر شہزاد الحسن جیسے اساتذہ کی مسلسل رہنمائی اور ہدایت کے سبب انہیں اپنے کام میں مہارت اور خود اعتمادی حاصل ہوئی۔

اپنی کہانی ختم کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد کا کہنا تھا کہ جس تیزی سے اس شعبے میں میڈیکل سائنس ترقی کر رہی ہے،وہ وقت دور نہیں جب کینسر کی تشخیص و علاج نہایت آسان اور موثر ہو جائیں گے ۔ جو طلبہ کینسر سے متعلق تحقیق میں دلچسپی رکھتے ہیں، انھیں ڈاکٹر عمر خالد کا مشورہ ہے کہ اپنے سوالات کے جوابات کی کھوج جاری رکھیں اور ساتھ ہی ساتھ ڈیٹا پروسیسنگ اور بائیوانفارمیٹکس کے ہنر میں مہارت حاصل کریں۔ ڈاکٹر خالد کا کینسر کے علاج کی تشخیص کے حوالے سے جوش و جذبہ اس میدان میں تجدیدی عمل کے امکانات اور بہترین مستقبل کی نوید سناتا ہے جو کینسر میں مبتلا افراد کے لئے امید کی ایک  نئی اور واضح کرن ہے۔

 

l