Post Date
Mar 30 2023

ہم اثر دوست

Authors
مدیحہ رحمن

آپ ہمیشہ سے یہ تو پڑھتے آۓ ہوں گے کہ عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ ردِ عمل کو مزاحمت کا ایک عمل بھی کہا جاتا ہے جو کسی چیز کی مخالفت کرتا ہے۔ سوچ کے اس زاؤیے میں اگر ایک اور لفظ“اثر” شامل کر کے سوچا جائے تو ایک خیال جنم لیتا ہے کہ شاید عمل اور ردعمل کے سیاہ و سفید میں ایک سرمئی حصہ“اثر” رکھتا ہے جو محرک کی نوئیت اور شدت سے ذیادہ اُس کے طور اور طریق سے منسلک ہوتا ہے۔ اور اگر یہ طور طریق کسی رد عمل کو فروغ دے، خاص طور پر منفی معنوں میں تو کیا اس امر کی ضرورت نہی کہ “طرز“عمل پہ نظر ثانی کی جائے؟

اس تمہید اور مضمون کا مقصد دراصل ہم اکیسویں صدی کے ذہنوں کو اپنے روز مرہ کے اعمال، عادات اور طور طریق پر نظر ثانی کرنےکی طرف اشارہ دلانا ہے۔

انسانوں کی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی نے زندگی کے بے شمار معاملات کو آسان تو کر دیا ہے لیکن دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا طرز زندگی فطرت سے الجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہماری عادات ناصرف اس کرہ ارض کی حدت کو بڑھا رہی ہیں بلکہ ہمارے ماحولیاتی نظام کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔
انسان اسی ماحول کا حصہ ہے جس میں حیوانات، نباتات، چرند ، پرند سب متحرک ہیں۔ اور اگر وہ اپنے کسی عمل کے ذریعہ اس ماحول کوگدلا کرے گا تو اُس عمل سے منفی رجحان یا ردعمل پیدا ہوگا۔ یہ منفی تبدیلیاں اس ماحول سے منسلک ہر شہ؛ بشمعول انسان خود، پر اپنا گہرااثر چھوڑتی ہیں۔ جیسا کے  وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ طرز زندگی بدلتا گیا اور مٹکوں اور مشکوں کی جگہ پلاسٹک کی بوتلوں نے لے لی۔
ماحول دوست رہن سہن اور محرکات ، جو ہماری مشرقی ثقافت کا بھی حصہ رہے ہیں، اور ہمارے بزرگوں کا طرز زندگی اس بات کا گواہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ فطرت سے اپنا رشتہ استوار رکھا۔ جیسا کے آج کل دنیا بھر میں فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنےکی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اور اس حوالے سے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ چیزوں کا استعمال کم سے کم کریں تاکہ  صنعتوں سے ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکے۔ minimalism کی تلقین جو کے ہمیں مذھبی طور پر بھی کی گئی ہے کو زندگی گزارنے کا شیوابنایا جائے۔

اسی طرح استعمال شدہ چیزوں کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے حوالے سے بھی شعور اجاگر کیا جا رہا ہے جبکہ ہماری مشرقی معاشرت میں یہ تمام عادات ہمیشہ سے پائی جاتی تھیں۔ چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنے کے حوالے سے ہماری کئی ایسی عادات تھیں، جنہیں اب نئی نسل تقریبا ترک کر چکی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ ماحول پر کسی ایک شخص کا اثر خفیف یا برائے نام ہوتا ہے لیکن اگر ہر شخص اپنے تئیں اپنا طور طریق بدل کر زندگی گزارنی شروع کر دے تو سوچیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟

میں نے بھی اپنی زندگی گزارنے کے طور طریق کو بدلا اور زیرو ویسٹ لائیف اسٹائیل اپنایا، روز مرہ کے معاملات اور عادات میں معمولی تبدیلئاں لا کر ماحولیاتی نظام کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا۔

زیرو ویسٹ زندگی گزارنے کا ایک فلسفہ ہے، جس کے تحت کچرا پیدا کرنے کو کم تر بنایا جاتا ہے اور مثالی طور پر صفر۔ یہ رویہ زندگی کے ہر شعبے اور عمل میں اپنایا جا سکتا ہے۔ اور اس کے لیےکوئی خاص عمر، وقت، وسائل یا تجربہ درکار نہیں۔ آپ میری مثال لیجئے، میں پچھلے پانچ سال سے اس تحریک اور فلسفہ کا حصہ ہوں،مکمل طور پر نا سہی مگر جس حد تک ہو سکے اپنا کردار ادا کر رہی ہوں اور آپ بھی کر سکتے ہیں۔
جیسے ہم اپنے دن کا آغاز دانت صاف کرنے سے کرتے ہیں میں نے بھی دانت صاف کرنے کے برش سے کیا، اور پلاسٹک کی بجائے بانسسے کے بنے برش کو استعمال کرنا شروع کیا، جو کہ بانچ سے دس سال میں اپنا آپ اس دھرتی کے حوالے کر دیتا ہے برعکس جس کے، ایک پلاسٹک کا برش پانچ سو سال سے بھی زائد کے عرصہ میں ڈی کمپوز ہوتا ہے۔ اسی طرح ڈسپوز ایبل اشیاء کی حوصلہ شکنی کے لئےپلاسٹک کی بوتل بار بار خریدنے کی عادت کو ترک کیا اور شیشے کی دوبارہ قابل استعمال بوتل کو اپنا ساتھی بنایا، میں روز دفتر آنے سے پہلے اسے پانی سے بھر لاتی ہوں اور جہاں موقعہ ملے دوبارہ بھر لیتی ہوں، اسی طرح ایک معیاری پیمانہ کا گلاس یا کپ بھی میرا ساتھی ہے جو میں کسی بھی مشروب مثلاء کافی خریدنے کے لئے استعمال کرتی ہوں، تیسری چیز جو میری روز مرہ کی ساتھی ہے وہ ہے ایک چھوٹی سی تھیلی جس میں میرا سٹیل کا اسٹراء، ایک چمچ اور کانٹا ہے، ان کے ساتھ ساتھ میں ایک سادہ کپڑے سے بنا تھیلا بھی ساتھ رکھتی ہوں جو خریداری کے لئے پلاسٹک کی تھیلئیوں کا متبادل ہے۔
 

i


ڈیجیٹل دور میں اگر کُچھ ہاتھ سے لکھنا مطلوب ہو تو میں پرانے اخبار سے بنی یہ سکے کی پینسل استعمال کرتی ہوں جس کے سِرے پر  بیج ہیں، جو جب یہ مکمل گھڑ جاتی ہے تو اس کا سرا زمین میں بُو دینےسےمیرے ہاتھ کا ایک پودا نکل آئے گا، اگر آپ انٹرنیٹ کی مدد لیں تو آپ کو پاکستان میں ہی ایسے بے شمار کم خرچ بالا نشیں متبادل وسائل مل جائیں گے، اُن سے دوستی کیجئے اور اپنی زندگی کا حصہ بنائیے، انہی چند دوستوں اور کُچھ اصولوں کے ساتھ کی وجہ سے میرا اور ماحول کا رشتہ بہت مظبوط ہوتا جا رہا ہے۔ 
 

h


معاملات زندگی میں یہ طرز عمل مسابقتی بھی ہے اور یہ روئیہ مجھے منفرد اور صاحب فکر ہونے کااحساس دلاتا ہے۔ اپنے ہر عمل اور فیصلہ سے پہلے میں زیرو ویسٹ کے چار R اسی ترتیب کے ساتھ ذہن میں دہراتی ہوں اورکوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے فکر کرتی ہوں : 
 

Refuse-Reduce-Reuse-Recycle

اُن تمام مصنوعات سے انکار کریں جو ماحول دوست نہیں، متبادل ماحول دوست مصنوعات تلاش کریں، جن کے متبادل میسر نا ہوں اُن کااستعمال گھٹانا شروع کریں، کم استعمال، دوبارہ استعمال اور ری سائیکل کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔
نامیاتی اشیاء اورمصنوعات  کا استعمال نا صرف ماحول دوست ہے بلکہ پائیدار، کم خرچ اور صحت کے لئے بھی مفید ہے۔

اس فلسفہ کا ایک اور زاویہ اپنا کچرے کی درجہ بندی کرنا بھی ہے، نامیاتی کچرا یا کچن کا آرگینک ویسٹ کمپوسٹ کیا جاتا ہے اور اپنی کھاد سے اپنے گھر کی سبزی بھی اُگائی جاتی ہے۔ زیرو ویسٹ کا فلسفہ آپ کو زندگی گزارنے کا ایک مکمل لاحہ عمل مہیا کرتا ہے اور اس طور طریق سے وُہ منفی محرکات جنم نہی لیتے جو رد عمل کی کیفیت کو جنم دیں۔ یقین مانئیے آپ کا ماحول دوست ایک چھوٹا سا عمل بھی “اثر” رکھتا ہے۔ پانی کی بوتل، ترکِ ڈسپوز ایبل، اور پلاسٹک سے انکار سے آج کے ہفتہ کا آغاز کیجئے، اور آہستہ آہستہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے “طرز” عمل میں تبدیلیاں لیتے آئیے، اور “اثر” کی تحریک کا حصہ بنئیے۔