زراعت پاکستانی معیشت کا بنیادی جزو ہے، مگر موسمیاتی تبدیلی، بدلتی آب و ہوا اور قدرتی آفات، جیسے سیلاب اور خشک سالی، نے ملک کی زراعتی پیداوار پہ خطروں کے گہرے سائے ڈال دئیے ہیں۔
اسی جانب ایک اہم تحقیق حال ہی میں جریدے" پلانٹ اینڈ سیل فزیا لو جی" (1) میں شائع ہوئی جس میں لمز شعبہ حیاتیات کے پروفیسر ڈاکٹر خرم بشیر نے ثابت کیا کہ ایتھانول(2) کی معمولی مقدار اگر کھیت کی مٹی میں شامل کرلی جائے، تو خشک سالی کے دوران فصلوں کی نشوونما میں بہتری دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ تجربات جاپان میں گندم اور چاول فصلوں پہ کیے گئے۔
چونکہ ایتھانول ایک سستا اور آسانی سے ملنے والا کیمیکل ہے، جو بے شمار صنعتوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس میں کھاد ساز صنعتوں کی اجارہ داری بھی شامل نہیں ،یہ حیران کن تجربات خشک زمینوں میں فصلوں کی نشوونما اور افزائش میں سنگِ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر خرم بشیر لمز کی زرعی زمین پر اپنے تجربات کا مشاہدہ کرتے ہوئے
اس انقلابی تجربے کو عالمی سطح پر بے حد پذیرائی ملی ہے اور بہت سی بین الاقوامی ویب سائٹس جیسا کہ ٹیلی گراف، ریکن جاپان ، یوریک الرٹ ،گولڈ مین ایسوسئیٹس ،وغیرہ نے اس موضوع پہ خبر یں شائع کی ہیں۔ نیز مذکورہ بالا جریدے نے اس کہانی کو اپنے ستمبر شمارے کے سرِ ورق کی زینت بھی بنایا ہے۔
جہاں دنیا بھر میں غذائی قلت کا شدید خطرہ ہے،وہاں ڈاکٹر خرم بشیر اور ان کے جاپانی ساتھیوں کی یہ تحقیق یقیناً قابلِ توجہ ہے۔ خاص طور پر امریکہ اور یورپ اس وقت خشک سالی کا شکار ہیں۔ انھیں ایتھانول کے مدد سے کھیتوں کو سیراب کرنے کی جانب دیکھنا ہو گا۔ پاکستان میں موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے زراعت کے شعبے کو جو نقصانات ہوئے ہیں وہ آئندہ سالوں میں خشک سالی کا اندیشہ پیش کر رہے ہیں۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت گندم اور چاول کی فصل پر شدید منفی اثر بھی ڈالتا ہے اور اس صورتحال میں ایسی نادرتجویز پر عمل کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔پاکستان میں کپاس کو چھوڑ کر جنییاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں قبول نہیں کی جاتی ۔ یعنی پاکستان جینیاتی تحریف شدہ (3) فصلیں بنانے کی صلاحیت رکھتا تو ہے مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے ۔ ایسے موقع پر ایسی ٹیکنالوجی، جو فصلوں کو جنییاتی طور پر تبدیل کیے بغیر ، ایسے کیمیکل کو استعمال کر ے جس کے استعمال میں کسی کو کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ ہو، ایک بہت قیمتی پیش رفت ہے۔
شعبہ حیاتیات کی نباتاتی تجربہ گاہ کا ایک منظر
ڈاکٹر خرم بشیر نے اس تحقیق کی ابتدا جاپان میں کی اور اب لمز میں رہتے ہوئے ان کا مقصد اسی نوع کے کام کو پاکستان میں بڑھانا ہے۔ ڈاکڑ خرم اپنی جاپانی ٹیم کےساتھ رابطے میں ہیں اور لمز کی ٹیم کو لے کر اب پاکستانی حکومت کو بھی اس مقصد میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تا کہ پاکستان میں اس کے ابتدائی تجربے اور پھر بڑے پیمانے پر تجربات کیے جا سکیں، تا کہ اس ٹیکنالوجی کو جلد از جلد میدانِ عمل میں کسان کے حوالے کیا جا سکے۔
ڈاکٹر خرم بشیر کے مقالے میں ایتھانول کی مدد سے پودوں کی کم پانی کوذخیرہ کرنے اور پتوں میں موجود مسام (4) کی بندش کے مظاہرے کو کمال تکنیکی مہارت سے دیکھا گیااور ثابت کیا گیا۔اس عمل کے کیمیائی اور جینیاتی منظر کو بھی جانچا گیا اور پودوں میں ذوقِ حفظِ زندگی اور پانی کی کمی کے باوجود زندگی کی بقا کے لیے اپنائے جانے والے کیمیائی اور جینیاتی عوامل کی بھرپور نشاندہی کی گئی۔ اِسی لیے یہ تحقیق اپنی نوعیت میں نہایت جامع ہے اور مزید آنے والے دنوں ، مہینوں اور سالوں میں قحط زدہ اور خشک سال علاقوں میں فصلوں کی نشونما کے لیے مزید راہیں دکھائے گی۔
ڈاکٹر خرم بشیر امید کرتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت ان کا ساتھ دے گی، تا کہ اس عمل سے قلیل پانی میں فصلوں کی پیداوار کو فروغ مل سکے اور ناگہانی آفات کے اثرات سے بچاؤ کے لیے ایک مضبوط دیوار کھڑ ی کی جا سکے۔
کہانی نویس: محمد صبیح انور
(1) Plant and Cell Physiology
(2) Ethanol
(3) Genetically modified