Post Date
Jan 11 2024

وقت کا سفرنامہ، گھڑیوں سے پہلے کی دنیا

Authors
ڈاکٹر وقاص علی اظهر

مجھے یقین ہے کہ اس وقت یہ تحریر پڑھتے ہوئے آپ کے آس پاس ایک گھڑی ضرور موجود ہوگی ۔ جو گھڑی عام طور پر ہمارے گھروں کی دیواروں یا ہماری کلائی پہ بندھی ہوتی ہے اس کی ایجاد کا سہرا ایک ولندیزی سائنسدان کرسٹیان ہگنز (۱۶۵۶) کو جاتا ہے۔ کیا  آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس ایجاد سے پہلے انسان وقت کا حساب کیسے کرتا تھا ؟ آئیے اس سوال کے جواب میں وقت کا ایک مختصر سفر طےکریں اور جانیں کہ اس حیرت انگیز ایجاد کی بنیاد کیا ہے۔
میسوپوٹیمیا دنیا کی قدیم ترین (۴۰۰۰ قبل مسیح)   تہذیب ہے۔ سمیر (موجودہ عراق) جنوبی میسوپوٹیمیا میں اس دوران آباد ہونے والی تہذیب  سمیرینز کہلاتے ہیں۔ سمیریوں نے دنیا کو ثقافت، سائنس اور تحریر سے متعارف کرایا۔ سب سے قدیم تحریر ۳۴۰۰  قبل مسیح میں سمیر میں پائی گئی۔
سمیری سات آسمانوں کے وجود پر یقین رکھتے تھے اور ان آسمانوں کی حرکت سے وقت کا حساب لگاتے تھے۔ ایک دن کو دو حصوں میں تقسیم کرتے تھے جن میں۱۲ گھنٹے دن اور ۱۲ گھنٹے رات کے لیے مخصوص تھے۔ سورج طلوع ہوتے ہی صبح کے اوقات کا آغاز ہوتا تھا۔ ہفتوں کا اندازہ چاند کے چار مراحل سے لگاتے اور مہینہ چاروں مراحل مکمل ہونے پر ہوتا تھا۔
۳۰۰۰قبل مسیح میں سمیریوں نے وقت کا حساب لگانے کے لیے حیران کن طور پر بیس ۶۰ نمبر سسٹم کا انتخاب کیا۔ حیران کن اس لیے کہ نمبر ۶۰ کا انتخاب غیر فطری سا محسوس ہوتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید گھڑیوں میں بھی وقت کا حساب اسی نمبر سسٹم میں کیا جاتا ہے۔ 
آج کے زمانے میں ہم اس نمبر سسٹم کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے بہترین مثال گھڑی ہی ہے جس میں ۱ گھنٹہ ۶۰منٹ میں اور ۱یک منٹ ۶۰ سیکنڈز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس سسٹم میں ہر نمبر کو ہم زیرو سے لے کر ۵۹ تک نمبرز کے طور پر لکھتے ہیں اور اگر کوئی نمبر ان کے علاوہ ہو تو اُسے ۶۰ سے تقسیم کر کے جو ریمینڈر(باقی) آتا ہے اُسے لکھ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ۶۲ کا مطلب ۲ جبکہ ۱۲۰ کا مطلب زیرو ہوگا۔ اسی وجہ سے ہم وقت ۵ بج کر ۶۲منٹ بولنے کے بجائے ۶ بج کر ۲ منٹ بولتےہیں۔
سمیریوں کے اس انتخاب کی ایک بنیادی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ نمبر ۶۰ کو برابر تقسیم کرنے کے کافی زیادہ طریقے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ایک گھنٹے کو ۶۰ منٹ، ۳۰ منٹ کے ۲حصے، ۲۰ منٹ کے ۳ حصے وغیرہ میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نمبر ۶۰ وقت کے حساب کے لیے سمیریوں کا انتخاب رہا۔
سمیریوں کی گھڑی میں کچھ خامیاں تھیں جیسے کہ وقت کی تقسیم غیر مساوی تھی اور موسمیاتی تبدیلوں کو نظر انداز کیا گیا تھا۔
قریب ۱۵۰۰ قبل مسیح میں قدیم مصریوں نے ایک آلہ تیار کیا جسے "سَن ڈائل" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ آلہ وقت کا پتہ لگانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سن ڈائل عام طور پر گول یا مربع شکل کا ہوتا ہے اور اس پر مخصوص علامات ہوتی ہیں جو سورج کی روشنی کا استعمال کرتی ہیں۔ جب سورج اوپر چڑھتا ہے، سن ڈائل پر ظاہر ہونے والے سائے کے موقع سے وقت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ سن ڈائل کا کام اس اصول پر مبنی ہوتا ہے کہ جب سورج اوپر چڑھتا ہے، اس کی روشنی گھڑی کی سمت میں پڑتی ہے اور اس سے ایک سائے کا نقش بنتا ہے۔ جس جگہ پر سائے کا نقش ہوتا ہے، وہ علامت ہمیشہ ایک خاص مقام کو ظاہر کرتی ہے۔
سورج کی حرکت کے ساتھ، سن ڈائل پر سائے کا نقش بڑھتا ہے یا گھٹتا ہے اور اس طرح سن ڈائل پر علامتوں کی مددسے گزرتے وقت کو ہم زمین پردیکھ سکتے ہیں۔ اس طریقے سے، سن ڈائل نے قدیم ادوار میں لوگوں کو روزانہ کے اوقات کا اندازہ لگانے میں مدد کی ہے اور یہ ایک آسان اور تاثربخش ترین تراکیب میں سے ایک ہے-
چونکہ سَن ڈائل سورج کی روشنی سے وقت کا تعین کرتا ہے، اس لیے اس کا استعمال رات میں ممکن نہیں ہوتا جو اس آلے کو دن کی روشنی تک محدود کر دیتا ہے۔
ایک  ہزار قبل مسیح میں معرفت پانے والی پانی کی گھڑی جسے" کلیپسیڈرا" بھی کہا جاتا ہے، ایک دلچسپ آلہ ہے جو وقت کی پیمائش کے لیے بنایا گیا۔ یہ گھڑی دو ڈبوں پر مشتمل ہوتی ہے جس میں اوپر والے ڈبے کو پانی سے بھر کر ایک سوراخ کے ذریعے پانی نیچے والے ڈبے میں منتقل کیا جاتا ہے۔ نچلے ڈبے میں پانی کی سطح کو وقت کی پیمائش کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پانی کی جگہ ریت کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے جنہیں "سینڈ کلاکس" یا "آؤر گلاس" بھی کہا جاتا ہے۔ ان گھڑیوں کا استعمال قدیم مصر، چین، یونان اور روم میں ہوتا تھا۔
گلیلیو گلیلی (۱۵۶۲-۱۶۴۲) ایک اطالوی ماہر فلکیات تھا جس نے پانی کی گھڑی کا استعمال تیزی سے  حرکت کرنے والے اشیاء کی رفتار ناپنے کے لیے کیا۔ گلیلیو نے پنڈولم کے ساتھ کئی تجربے کیے۔ ۱۶۷۳ میں ،  ۷۳ سال کی عمر میں گلیلیو کوایک آلے کا خیال آیا جو پنڈولم کو دھکیل کر ہلاتا رہتا تھا - ایک ترکیب جسے  گھڑیوں پر لاگو کیا جا سکتا تھا۔ کرسٹیان ہائگنز نے ۱۶۵۶ میں اپنی لٹکن والی گھڑی کا ڈیزائن تیارکیا اور اسے ان کے آلہ ساز سلیمان کوسٹر (۱۶۲۲-۱۶۵۹) نے تیار کیا۔ انھوں نے ۱۶۵۷ میں اس مشین کا پیٹنٹ حاصل کیا ، لیکن ہائگنز کی گھڑی کا خیال گلیلیو کے لٹکنوں پر کیے گئے تجربوں سے متاثر تھا۔
اور اس طریقے سے دنیا کو اس قیمتی ایجاد سے متعارف کرایا گیا۔ چلیے اس سفر کا اختتام کلائی میں پہننے والی گھڑی کے نظام کو سمجھنے سے کرتے ہیں۔
ایک گھڑی کو بیٹری سے چلایا جا سکتا ہے۔ بیٹری ایک چھوٹے ، ٹیوننگ فورک کی شکل والے کوارٹز کے ٹکڑے کو بجلی کا کرنٹ بھیجتی ہے ، جس سے وہ فی سیکنڈ ۳۲،۷۶۸ کی شرح سے ہلتا ہے۔ اس نمبر کو گھڑی کے سرکٹس کے ذریعہ ایک ہرٹز تک کم کر دیا جاتا ہے ، جسے ایک الیکٹرک موٹر کے ذریعہ گھڑی کی ٹک میں تبدیل کیا جاتا ہے۔