لمز:" تتلیوں کا، جگنوؤ ں کا دیس"؟
حیاتیاتی تنوع (1) ہماری زمین کا خاصہ ہے۔ پودوں اور جانوروں کی کروڑوں قسمیں جو ہمارے رُوئے ارض پہ آباد ہیں، نہ صرف ہماری زندگیوں کو خوبصورت بناتی ہیں بلکہ ان کا عددی توازن اور ان کی موجودگی ہمارے ماحول، آب و ہوا اور زمینی رنگا رنگی کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔ جب انسانی سماج کی آویزش سے یہ توازن بگڑتا ہے، وہاں نسلوں کی نسلیں اپنی سانسوں کی بقا کے لیے ترس جاتی ہیں اور بالآ خر معدوم ہو جاتی ہیں۔ تہذیبِ حاضر کا ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ کسی طرح حیاتیاتی تنوع کی نگہداشت کی جائے اور اس کی بوقلُمونی کو انسانی صنعت، نقل و حمل اور تہذیبی ترقی کی دستبرد سے بچایا جائے۔ یہ ایک عالمی فریضہ ہے۔
میلیا ایزیڈراچ، جسے عام طور پر چائنا بیری ٹری، بیڈ ٹری، کیپ لیلک، سرنگا بیری ٹری، یا سفید دیودار کے نام سے جانا جاتا ہے، مہوگنی فیملی میں درخت کی ایک قسم ہے، یہ مقامی طور پر انڈومالیا اور آسٹریلیشیا میں پایا جاتا ہے۔
اسی مشترک عالمی فریضے میں سے ایک اہم قدم لمز میں شعبہ حیاتیات کے رکن ڈاکٹر شہزاد الحسن اور ان کے ساتھیوں نے اٹھایا اور ہمیں اپنی تحقیق سےیہ باور کرایا کہ ہماری یونیورسٹی نہ صرف ایک تعلیمی ادارہ ہے، بلکہ حیاتیاتی تنوع کا ایسا حسین اور وافر ذخیرہ بھی ہے جو دل و دماغ کو نہ صرف تازگی دیتا ہے، بلکہ فطرت شناسوں کے لیے تحقیق اور مطالعے کا سامان بھی فراہم کرتا ہے۔ "لمز کی حیاتیاتی رنگا رنگی (2)" کے عنوان سے یہ منصوبہ دراصل ادارے کا عزم ہے کہ ہمارے سو ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط تعلیمی درسگاہ میں موجود نباتاتی اور حیوانی زندگی کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جائیں۔
اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں کیمپس میں موجود تمام درختوں، پرندوں اور پودوں کی نشاندہی کی گئی اور ان کے محّلِ وقوع کی جغرافیائی سند اکٹھی کی گئی۔ پتہ یہ چلا کہ پنجاب بھر میں موجود مقامی نباتات کی تمام انواع ہمارے لمز میں موجود ہیں۔ نیز 105 نباتاتی انواع جن میں نایاب پودے بھی شامل ہیں، ہمارے باغات کی زینت ہیں۔ علاوہ ازیں مہاجر پرندے (3)، حشرات الارض، رینگنے والے جانور(4)، اور بھانت بھانت کے پھول اس باغ کا حصہ ہیں۔ یہ سب کچھ کسی انمول خزانے سے کم نہیں۔ ہم روز اس چھُپی ہوئی زندگی سے صرفِ نظر کرتے آگے گزر جاتے ہیں مگر ڈاکٹر شہزاد الحسن کا انمول کام ہمارے قدموں کو روک روک کے ہمیں دعوتِ نظارہ دے رہا ہے۔
پرپل سن برڈ سن برڈ فیملی کا ایک چھوٹا پرندہ ہے جو بنیادی طور پر جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔
یہ منصوبہ شہزاد الحسن کی زیر نگرانی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ نباتیات کے تعاون سے مکمل ہوا۔ یہ پروجیکٹ اس بات کا اعلان ہے کہ اسکول آف سائنس اینڈ انجینئرنگ حیاتیاتی ماحول کے بارے میں متفکر ہے اور نوجوانوں کی توجہ اس جانب دِلانا چاہتا ہے۔ اگر ہم نے اس خوبصورت اور متوازن ماحول کی حفاظت نہ کی تو نہ صرف ہم زندگی کے حُسن میں کمی لے آئیں گے بلکہ اپنے آپ کو نئے نئے حوادث کے لیے بھی پیش کر دیں گے۔
اس منصوبے کی مزید تفصیلات کے بارے میں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اور مجھے تو احمد شمیم کی یہ لازوال نظم یاد آ گئی جسے مرحومہ نیرّہ نُور کی آواز نے مزید لا فانی بنا دیا۔
کبھی ہم خوبصورت تھے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔!
کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی!
بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے
لیکن ہمارے پاس رہتے تھے !
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے۔۔۔ ۔۔امی!
تتلیوں کے پر بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
کہ ہم کو تتلیوں کے،جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو۔۔۔
کہانی نویس: ڈاکٹرمحمد صبیح انور
فرہنگ
(1) Biological diversity
(2) Flora and fauna of LUMS
(3) Migratory birds
(4) Reptiles