اردو میں فنی و تکنیکی نثر اور تھامسن سول انجینئرنگ کالج، رُڑکی: مختصر تعارف
کسی بھی زبان کی شاہراہِ ترقی کا ایک سنگِ نشان یہ بھی ہوتا ہے کہ اُس زبان میں مختلف انواع کے مضامین اور موضوعات کس قدر اور کس طرح ادا کیے جا سکتے ہیں؟ اردو زبان کے بارے میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ سماجی اور عمرانی علوم سے متعلق مباحث تو اِس زبان میں کسی قدر سہولت سے ادا کیے جا سکتے ہیں مگر یہ زبان جدید سائنسی مباحث، بڑی حد تک بیان کرنے سے قاصر ہے۔
یہ رائے عام طور پر زیادہ تر عمومی ناواقفیت اور چند غلط فہمیوں کی زائدہ ہے۔ یہ بیّن حقیقت ہے کہ اردو زبان میں متفرق سائنسی موضوعات کو بیان کرنے کی خاطر متعدد کوششیں اٹھارھویں صدی کی تیسری دہائی ہی میں شروع ہو گئی تھیں۔ مثلاً حیدر آباد دکن میں ۱۸۳۴ء میں نواب شمس الامراء کی سرپرستی میں ایک ’دارالترجمہ‘ کی بنیاد رکھی گئی، جہاں ریاضی، طبیعات، کیمیا، علم الادویہ، جیومیٹری، فلکیات اور دیگر علوم پر مختلف کتب یورپی زبانوں سے اردو میں ترجمہ کی جاتی تھیں۔ اسی دور میں لکھنؤ میں اودھ کے بادشاہ نصیر الدین حیدر کی سرپرستی میں سائنسی علوم سے متعلق چند کتب انگریزی سے اردو میں منتقل ہو رہی تھیں۔
The History of Rasselas: Prince of Abissinia
سیموئل جانسن کا ایک معروف انگریزی ناول، جس کو اردو میں ’تواریخ راسلس‘ کے عنوان سے منتقل کرنے والے کمال الدین حیدر عرف محمد میر لکھنوی کا نام اس حوالے سے قابل ذکر ہے کہ انھوں نے اس دور میں سائنسی موضوعات پر تقریباً اٹھارہ کتب کو اردو میں منتقل کیا ۔ ۱۸۲۵ء میں قائم ہونے والے دہلی کالج اور اسی کالج میں ۱۸۴۳ء میں قائم ہونے والی دہلی ٹرانسلیشن سوسائٹی کی خدمات بھی اس حوالے سے بہت نمایاں ہیں۔ کالج اور سوسائٹی کے زیر اہتمام متنوع علوم پر تقریباً سوا سو کتب ترجمہ کی گئیں، جن میں نمایاں تعداد سائنسی کتب کی تھی۔ سوسائٹی کے کارپرداز اس حوالے سے خاصے روشن خیال ثابت ہوئے کہ اس زمانے میں انھوں نے اردو میں ترجمے کے جو اصول وضع کیے تھے، بڑی حد تک آج بھی غیر متعلق نہیں ہوئے ہیں۔
انیسویں صدی ایسے ہی اداروں اور کاوشوں میں ایک نام تھامسن سِوَل انجینئرنگ کالج، رڑکی (پہلا نام: سول انجینئرنگ کالج) کا بھی ہے۔ رڑکی، سہارن پور اور ہردوار کے قریب ایک قصبہ ہے، جو اُس وقت شمال مغربی صوبے یا اتر پردیش کا حصہ تھا۔ آج کل رڑکی شہر، ریاست اتراکھنڈ کا حصہ ہے۔ اس کالج کا امتیاز یہ تھا کہ ۱۸۴۷ء میں اس کے قیام سے لے کر تقریباً ۱۸۷۰ء تک، ہندوستانی باشندوں کو سول انجینئرنگ کی جملہ تعلیم اردو زبان میں دی جاتی رہی۔
یہاں اس کالج کے قیام کا مختصر پس منظر بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ دوسری اینگلو مراٹھا جنگ (۱۸۰۵ء تا ۱۸۰۳ء) سے لے کر دوسری جنگ پنجاب (۱۷۴۹ء) کے خاتمے پر انگریز، شمال مغربی صوبہ جات (اُتر پردیش)، صوبہ جاتِ وسطی (مدھیہ پردیش)، بہار، مہاراشٹر، گجرات، راجستھان، سندھ، بلوچستان، شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبر پختونخواہ) پر بلاواسطہ یا بالواسطہ متصرف ہو چکے تھے۔ ان علاقوں پر سیاسی لحاظ سے غلبہ برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ یہاں کے قدرتی وسائل (مثلاً دریاؤں، زرخیز زمینوں، زرعی پیداوار وغیرہ) سے حتی المقدور فائدہ اٹھایا جائے۔ دوم یہ کہ یہاں پہ عمومی ترقیاتی کاموں کا جال سا بچھایا جائے۔ مثلاً پہلے سے موجود سڑکوں کو ترقی دی جائے، نئی سڑکیں اور راستے بنائے جائیں، ریلوے ٹریک بچھائے جائیں، تار (ٹیلیگراف) کا نظام قائم کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ اس حکمتِ عملی کا انھیں دوہرا فائدہ یہ ہونا تھا کہ جہاں یہ کام ہندوستانی باشندوں کی نظر میں ان کی قدر بڑھاتے وہیں ان سب علاقوں میں انگریز سپاہ کی بآسانی نقل و حمل اور دور دراز کے علاقوں تک ان کی رسائی کو ممکن بناتے۔ یوں انگریزی اقتدار کی قوتِ نافذہ میں اضافہ ہوتا۔ ان مشکل اور طویل مدتی منصوبوں کے لیے ماہر سول انجینئرز اور ان کے معاونین کی ضرورت تھی جو اس نوعیت کے کاموں کو تکمیل تک پہنچا سکیں۔
یوں تو اس زمانے میں شمال مغربی صوبے (اتر پردیش) میں انگریزوں کے زیرِ انتظام تین کالج (دہلی کالج، آگرہ کالج، بنارس کالج) قائم ہو چکے تھے اور ۹ اینگلو ورنیکولر اسکول بھی خدمات انجام دے رہے تھے، مگر فنّی اور تکنیکی تعلیم کے لیےمخصوص ادارہ کوئی نہیں تھا۔ لہٰذا کمپنی کے مقبوضات میں عام طور پر اور خاص کر شمال مغربی صوبے میں جاری عمومی ترقیاتی کاموں کے لیے اہلکار کو مہیا کرنے کے لیے ۲۵ نومبر ۱۸۴۷ء کو سول انجینئرنگ کالج، رڑکی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ابتدا میں کالج کا نام کالج آف سول انجینئرنگ رکھا گیا اور لیفٹیننت آر۔میکلیگن کو کالج کا پرنسپل مقرر کیا گیا۔ ۱۸۵۴ء میں کالج کا نام تبدیل کر کے تھامسن انجینئرنگ کالج، رڑکی رکھ دیا گیا۔ آغاز میں طلبہ کے تین زمرے قائم کیے گئے، دو زمرے یورپی کمیشنڈ اور نان کمیشنڈ افسروں کے لیے جبکہ تیسرا زمرہ مقامی ہندوستانی طلبہ کے لیے مخصوص کیا گیا۔ کالج کے قیام سے لے کر کم از کم ۱۸۷۰ء تک ہندوستانی طلبہ کے لیے ذریعہ تعلیم کے لیے اردو زبان کو اختیار کیا گیا۔ کالج کی مساعی سے قبل سول انجینئرنگ کے موضوعات پہ اردو میں کوئی کام نہیں ملتا تھا۔ اگرچہ ریاضیات، ہیئت، فلکیات، جغرافیہ، جبر و مقابلہ، مساحت وغیرہ پہ کچھ نہ کچھ مواد ہم دست تھا لیکن سول انجینئرنگ سے متعلقہ موضوعات اردو میں منتقل نہیں ہوئے تھے۔ لہٰذا کالج انتظامیہ نے اس حوالے سے بنیادی نوعیت کے مضامین پر کتب ترجمہ کروانی شروع کیں۔
اس سلسلے کا آغاز ۱۸۵۰ء سے قبل ہی ہو گیا تھا۔ ۱۸۵۰ء کے بعد سے تسلسل سے مطبوعات سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ زیادہ کتب تو اردو میں ہی شائع ہوئیں لیکن چند کتب ناگری حروف میں بھی شائع ہوئیں۔ اس زمانے کی چند دستیاب کتب بکھری ہوئی حالت میں برصغیر کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔
راقم کی تلاش و تحقیق کے نتیجے میں پہلی مرتبہ رڑکی کالج سے شائع ہونے والی چونتیس (۳۱ اردو اور ۳ ناگری حروف میں) کتب کی فہرست تیار کی گئی ہے۔ ذیل میں ایک جدول ترتیب دیا گیا ہے جس کے ذریعے کتب کے نام، ان کے مصنفین و مترجمین، سنہ اشاعت اور تعداد صفحات، جیسی معلومات درج کی جا رہی ہیں۔ جہاں کچھ معلومات میسر نہیں آ سکیں وہاں --- کا نشان لگا دیا گیا ہے۔ یہ فہرست چونکہ اب تک کے تحقیقی کاموں میں پہلی مرتبہ مرتب کی گئی ہے، اس لیے اس میں مزید بہتری کی گنجائش یقیناً باقی ہے۔
کالج کی دستیاب تصانیف و تالیفات کے جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کالج کے نمایاں مصنفین و موَلفین میں رائے منّو لال (فرسٹ نیٹو ماسٹر بعد ازاں ہیڈ نیٹو ماسٹر)، لالہ بہاری لال (فرسٹ نیٹو ماسٹر،بعد ازاں ہیڈ نیٹو ماسٹر)، کنہیا لال (سب اسسٹنٹ سول انجینئر)، شنبھو داس (اسسٹنٹ نیٹو ماسٹر، نیٹو سروینگ ماسٹر)، شیخ بیچا (اسسٹنٹ نیٹو ماسٹر، سیکنڈ نیٹو ماسٹر)، موہن لال اور جگ موہن لال شامل تھے۔
عموماً کالج سے چھپنے والے رسائل کے سرِ ورق کی عبارت یوں ہوتی تھی:
رسالے
جو کہ واسطے طلبائے مدرسہ رڑکی کے تیار
کیے گئے ہیں
رسالہ نمبر دوم
در باب مضبوطی اشیائے سامان عمارت کے
ترجمہ کیا ہوا منو لعل
اول نیٹو ماسٹر مدرسہ رڑکی کا سنہ ۱۸۵۱ء
کالج کی تاسیس کے وقت سے تقریباً ایک چوتھائی صدی تک مقامی ہندوستانیوں کو اردو زبان میں ہی تعلیم دی جاتی رہی۔ اس مقصد کے لیے ان موضوعات سے متعلق زیادہ تر انگریزی کتب کو اردو میں منتقل کیا گیا۔ افادی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے کالج کے نصاب میں شامل کتب ہی اس کام کے لیے منتخب کی گئیں۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ کالج میں ہندوستانی طلبہ کی تدریس کے لیے ذریعہَ تعلیم، اردو زبان کو منتخب کیا گیا۔ کالج کیلنڈر ۱۸۷۱ سے ۱۸۷۲ء میں کالج کے ہندوستانی طلبہ کی فہرستوں پر نظر ڈالنے سے باآسانی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کالج میں مسلمان اور ہندو طلبہ کی شرح تقریباً یکساں تھی۔ ہندو طلبہ میں سے بیشتر کا تعلق اتر پردیش سے ہی تھا، اس کے باوجود یہ کالج اردو ہندی تنازعہ سے دور تھا۔ اسی باعث کالج کی بیشتر تالیفات اردو رسم الخط میں جبکہ محض چند ایک کتب ناگری رسم الخط میں شائع ہوئیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کی تیسری چوتھائی تک بھی شمالی ہندوستان میں اردو زبان اور رسم الخط کو بیشتر طبقات میں، مذہبی و ثقافتی بُعد سے قطعِ نظر، قبولِ عام حاصل تھا۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کالج میں ہونے والا تالیفی کام اتنے محدود پیمانے پر کیوں تھا؟ تو یہ بات خاطر نشان رہے کہ تھامسن سول انجینئرنگ کالج، رُڑکی کے قیام کا اصل مقصد سول انجینئرنگ کی تعلیم دینا تھا۔ کالج کے منتظمین کی توجہ صرف اس بات پر تھی کہ تدریسی امور سے متعلق کچھ مواد مقامی طلبہ کے لیے تیار کروایا جا سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے کالج کے مقامی تدریسی عملے میں سے ہی چند اساتذہ کو منتخب کیا ۔ ان اساتذہ نے نصاب سے متعلق چند ضروری کتب کو اردو میں ترجمہ و تالیف کیا۔ اس کوشش میں ان اساتذہ کی ذاتی لیاقت ہی کام آئی۔ ان کی رہنمائی کرنے کو کوئی باقاعدہ ادارہ بھی نہ تھا اور نہ ہی کوئی سرپرست تھا۔اسی باعث کالج میں ہونے والے تصنیفی و تالیفی کام کی تنگ دامانی کھٹکتی ہے مگر اس کے باوجود کالج کے اساتذہ کا یہ امتیاز ہے کہ انھوں نے مقدور بھر کام کے ذریعے ایک نئے چلن کی بنیاد رکھی۔
کالج میں ہونے والے تالیفی کام میں موضوعات کے ساتھ ساتھ ان کی پیشکش میں بھی خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ گو موضوعات زیادہ تر سول انجینئرنگ سے ہی متعلق ہیں مگر اکثر ریاضی اور جغرافیہ کے موضوعات سے بھی اعتنا کیا گیا ہے۔ اپنے موضوعات کے تناظر میں کالج کی کتب میں زیادہ تر عملی مشقوں سے متعلق مباحث ہوتے تھے۔ اسی طرح عملی نوعیت کے سوالات اور ان کے حل ہوتے تھے۔ کالج کی تالیفات کے معتدبہ حصوں میں عملی نوعیت کے سوالات اور مشقیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ شکلوں اور تصاویر کے ذریعے موضوع کی وضاحت کی جاتی تھی۔ ان کتب کی نثر بھی اکثر و بیشتر صاف تھی اور اس میں اتنی صلاحیت تھی کہ وہ تکنیکی و فنی موضوعات کو بغیر کسی اشکال کے منطقی طور پر پڑھنے والے تک پہنچا سکے۔
رڑکی کالج میں اردو زبان میں سول انجینئرنگ کے مضامین بیان کرنے کی اس ابتدائی کاوش کے بعد ایک طویل عرصے تک ہمیں اور کوئی کاوش نظر نہیں آتی۔ ۱۹۱۷ء میں جامعہ عثمانیہ اور پھر دارالترجمہ کے قیام نے پھر اس چراغ کو روشن کیا۔ اس ضمن میں یہ امر قابل توجہ ہے کہ منتشر اور وقفے وقفے سے ہونے والی ان کاوشوں کی افادیت کے باوجود مستقل انگریزی ذریعہ تعلیم نے یہ خیال عام کر دیا کہ اردو زبان سائنسی و تکنیکی مضامین بیان کرنے سے بیشتر معذور ہے۔
اردو میں تھامسن انجینئرنگ کالج، رڑکی کے اساتذہ، مترجمین و مؤلفین کی یاد نگاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ بات ضرور نشانِ خاطر رہے کہ یہی لوگ تھے جنھوں نے اردو میں خالص فنی و تکنیکی موضوعات بیان کرنے کی داغ بیل ڈالی۔ انگریزی کتب کو ترجمہ کیا، ان کے موضوعات میں مقامی حالات کے تحت اضافے بھی کیے۔ تراجم و تالیفات میں قابلِ ذکر تنوع ہونے کے باوجود اندازِ نثر کی اِکسانیت قائم کرنے میں کافی کامیاب رہے۔ اس اندازِ نثر میں اتنی صلاحیت تھی کہ معمولی خواندہ شخص بھی بغیر کسی اشکال کے زیرِ بحث موضوع کی تفہیم میں آسانی محسوس کرتا تھا۔ تیزی سے کروٹیں لیتے وقت کی زد میں، یہ فاضلین بے شک گم نام سہی مگر ان کے کام کی افادیت اور اہمیت بہرحال مسلّم ہے۔