فزکس ہاتھوں میں
جب میں نے ۲۰۰۷ء میں امریکہ سےواپس آنے کےبعد سکول برائے سائنس اور انجینئرنگ، لمز میں بطور اُستاد اور محقق قدم رکھا،تومیرےسامنے ایک خالی کمرہ تھا۔ ایک سال بعد طلبہ کی پہلی جماعت نے داخل ہونا تھا اور میرے ذمے یہ احساس تھا کہ اِن طلبہ کےلیے مُجھےفزکس کی ایک شاندار اور فِکرانگیز تجربہ گاہ بنانی ہے۔چنانچہ میں نے اپنے چھوٹے سےکمرے کو تجربہ گاہ بنالیا۔ وائس چانسلر ڈاکٹر ظہور احمد اور بعدازاں ڈاکٹراحمد دُرانی سے خصوصی رقم کی دستیابی کا وعدہ لیا اور کام میں جُت گیا۔
آنجہانی صہیب شمیم سے آکسفورڈ ہی سےدوستی تھی۔اُن کے ساتھ مل کے نئے تجربوں کی تخلیق کا بیڑااُٹھایا۔عمرحسن، رابعہ ودود،علی حسن، عظیم اقبال، کنیزآمنہ اور اسماء خالد کے ساتھ مل کےنئے افکار کی تلاش کے بعد نیا سامان خودہاتھوں سے بنایااور ۲۰۰۸ء میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہشیار بچوں کے سامنےایک نیم تیارشدہ کمرے میں پہلی مرتبہ فزکس کی ابتدائی تجربہ گاہ پیش کی اور اطمینان کی کبھی نہ ختم ہونے والی دولت حاصل کی۔ ڈاکٹرعمر حسن اب رٹگرز یونیورسٹی میں اور ڈاکٹر اسماء خالد ملبورن یونیورسٹی میں تحقیق اور تدریس کی جدید رفعتوں کوطے کرکے ہم سب کوحیران کررہےہیں۔
سائنس اور فزکس کی تعلیم تجربوں کے بغیر بانجھ ہوتی ہے۔ تجربوں کی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے جوخالص نظریّے کی دُنیا سےمختلف ہوتی ہے۔ ایک ماہر تجربہ کار ایک متحمل اور بُردبار شخصیت کامالک ہوتاہے جو عرق ریزی سے حرارت پیما کے سیمابی وجود کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھتاہے، دُوربین کے عدسے سے کسی دُور افتادہ ستارے کےجھرمٹ کو پہروں تکتارہتاہےاور نہایت ایمانداری سے اپنے تمام مشاہدات کو دفترِ قرطاس پہ قلمبند کرتاچلا جاتاہے۔ وولٹ پیما کی سوئی کی ہلکی سی جُنبش اس کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھیردیتی ہے۔ موٹر کی گراریوں کی آواز اُسے بےچین کردیتی ہے اور لیزر شعاعیں جب پردے پہ ایک خوش رنگ نقش بکھیرتی ہیں، تو اس کی سانس تیزچلنے لگتی ہے۔ مشاہدہ کار نہایت عاجزی سے اپنی کائنات اور اپنے تجربات کے آئنے میں اپنی بے مائگی کوبھی سنوارتا رہتا ہے۔ تجرباتی سائنس دان جب اپنے تجربوں سے حاصل ہونے والی مقداروں کو تحریر کرتاہے تو نہایت ایمانداری سے مقداری بےیقینی (Uncertainty) کو بھی لکھتا ہے، تجربوں کی فِکری حدُود کی نشاندہی کرتاہے اور اِس طرح اپنی عاجزی کا برمَلا اقرار کرتاہے۔پچھلے چودہ پندرہ سالوں ںیں میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ لمزمیں فزکس کی تجربہ گاہ، جِسے ہم فِزلیب (Physlab) کہتےہیں، اِسی طور شاگردوں کی ذہن سازی اور شخصیت کی صنّاعی کرسکے۔ چنانچہ میرے نزدیک فزلیب بنانے کاعمل شخصیتوں کوسنوارنے کےعمل کے مترادف ہے۔
آپ جانتے ہوں گےکہ ہمارے مُلک میں عام طورپریہ سمجھا جاتاہےکہ جب تک ہم مہنگے داموں بیرونِ ملک سےبہترین آلات منگوا کے اپنی درسگاہوں کی زینت نہیں بنائیں گے، ہم سائنسی تحقیق کے سمندر کی موجزنی نہیں کرپائیں گے۔ یہ تاثُّر صرف ایک حد تک درست ہے۔ تدریسی نقطہِ نگاہ سے بننے والی تجربہ گاہوں میں یہ اصول پوری طرح لاگو نہیں ہوتا۔ بلکہ اِس میدان میں تو”آپ کاج، مہاکاج “ کے مصداق خود ہاتھ سےاپنے آلات بنانا اور پھر اِن آلات کو حُسنِ ترتیب کے ساتھ جوڑ کے ایک بڑا تجربہ بناڈالنا ہی عملی فزکس کی معراج بن جاتاہے۔ یہ خود ساختہ تجربے ایک تو نہایت سَستے ہوتےہیں، دوسرا، اُن کو بنانے کے سفر میں فزکس کے نِت نئے پہلو اُجاگر ہوتےہیں اور کتابوں میں بند نظریّے جیتےجاگتے، رنگ برنگ صورتوں میں تجسیم پاکرذہن کےدریچوں کو وَا اور سمجھ کے افقوں کوزیرکرتے نظر آتے ہیں۔گویاحَسَن کوزہ گر کے بنائے ہوئے مٹی کےپیالے بولنا شروع کردیتے ہیں! اپنی مددآپ سےبنے ہوئے۔
تجربے شاگردوں میں سائنسی اور طبیعی شعور اُجاگر کرنے میں، برآمدشدہ، زرق برق اور چمکتے دمکتے مگرغلافوں میں بند تجربات کی نسبت بہت زیادہ مُفید ہوتےہیں۔ گویا فزکس کی تجربہ گاہ اِس خود پروری کے نتیجے میں ایک مستعد کارخانہ بن جاتی ہے، اورساکت وجامد نوادرات کا شیش محل نہیں بنی رہتی۔ اِن آلات کے خراب ہونے کا ڈربھی جاتارہتاہےکہ آخرآپ نے یہ آلات خود بنائے ہیں، انہیں مرمت کرنا بھی تو آپ کےبس میں ہوگا۔ خرابیوں کا سُراغ لگانا بھی نہایت آسان ہوجاتا ہے ۔
بقولِ غالب :
اور بازار سےلےآئے، اگر ٹوٹ گیا
ساغرِجم سے میرا جامِ سفال اچھاہے
ایسی توانا تجربہ گاہ تخلیق کی جاتی ہے، تعمیر نہیں۔ میں نے یہی جذباتی تحریک اپنے کام میں استعمال کی۔ چنانچہ سب سے پہلے میں نےایک خرادمشین خریدی، وہ بھی کباڑیے سے۔ فِزلیب بنانے میں تکنیکی ماہرین کو،جن میں حافظ رضوان ، محمدیوسف اور خادم محمود سرِفہرست ہیں، اپنی انجمن میں شامل کیا اور ان کی مدد سےفزکس کے اصولوں پہ مبنی تجربات کا سانچہ ذہن میں بٹھایا، آلات کے ڈیزائن کو آگے بڑھایا، تجربوں سے حاصل ہونےوالی متوقع مقداروں کا بیش آمدگی سُراغ لگایا اور پھر اپنی نئی تعمیر کردہ کارگاہ میں نئے نئے آلات بنائے۔بہت سےتجربوں کو کمپیوٹر کےساتھ جوڑا تاکہ تجرباتی مقداروں کو سہولت کےساتھ اور وافِرمقدار میں حاصل کیاجاسکے اور پھر مقداری تجزیے(data analysis) سے کام لیتےہوئے قیاس اور استنباط، پیش گوئی اوراستخراج کی منزلیں، جو سائنسی رویے کاحصّہ ہیں ، بروئےکار لایا جاسکے اور نتیجتاً فِزکس درسی کتابوں کی قید سےنکل کے عمل کی جولا نگاہ میں داخل ہوسکے اور ہمارے ہزاروں طلبہ وطالبات فزکس کی حیرت انگیزیوں کی خوشہ چینی کرسکیں۔
الحمدُللہ، اب فزلیب مُلک میں تجرباتی فزکس کی عملی تربیت کے لیے ایک مثالی آماج گاہ بن چکی ہے۔ ہمارے پاس بنیادی سے لے کر عالی درجوں کےتجربات تیار ہیں۔ یہ تجربے ہرلحظہ بدلتےبھی رہتے ہیں اور فزکس کی تمام شاخوں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ چند مثالوں سے ان تجربات کی نوعیت واضح کی جاسکتی ہے۔ ابتدائی تجربہ گاہ میں ایک تجربہ مائع نائٹروجن کی حرارتِ مخصوصہ (specific heat) ناپنے سے تعلق رکھتاہے۔ایک چھوٹے سےکپ میں مائع نائٹروجن اُنڈیلی جاتی ہے۔یہ کپ ایک برقی ترازو (electronic balance)یہ دھراہے۔ نائٹروجن کی تبخیر(evaporation) سے وزن رفتہ رفتہ کم ہوجاتاہے۔وقت اور وزن کاڈیٹا کمپیوٹر پہ منتقل ہوتاہےاور طلبہ اِسےایک متحرک گراف (graph) میں دیکھتے ہیں۔ اس عمل کےدوران نائٹروجن میں ایک مزاحم (resistor) میں سے مخصوص وقت کے لیے برقی رَو(current) گزاری جاتی ہےجِس سے مزاحم گرم ہوتاہےاور تبخیر کاعمل تیز ہوجاتاہے۔ کچھ دیر بعد برقی روروک دی جاتی ہے اورتبخیر کی قدرتی رفتار ایک بارپھربحال ہوجاتی ہے۔تبخیر کی قدرتی اور برقی رفتار کےموازنے سے طلبہ کو دعوت دی جاتی ہےکہ وہ نائٹروجن کی حرارتِ مخصوصہ معلوم کریں۔ اب ظاہر ہےاس تجربےکی مددسے گراف اور اس کی وضع قطع کافہم بھی سیکھاجاتاہے، حراریات (thermal physics) اور برقیات (electricity) کا باہمی تعلق بھی نمایاں ہوتاہے اور توانائی کے استقرار (conservation) کا عملی مظہر بھی کھلی آنکھوں نظرآتاہے۔ اس تجربے میں استعمال ہونے والے سب آلات فِزلیب ہی کی پیدوار ہیں۔برقی ترازو سےلےکے فزلاگر تک،جو مقادیر (quantities)کوکمپیوٹر میں منتقل کرتاہے،عمرحسن اور اس کے ساتھیوں نے تخلیق کیے ہیں۔
ایک اورتجربے میں لوہے کی ایک لمبی افقی پٹی کی سطح پرباریک سوراخ بنائے گئے ہیں۔ اِس پٹی کا اندرونی حصّہ خالی ہےاور اِسے ایک ہواکے پمپ(Pump) سےمنسلک کیا گیاہے۔ہوا تیزرفتاری سے ان باریک سوراخوں سےخارج ہوتی ہے اور پٹی کے متوازی ایک تہ بنادیتی ہے۔اس تہ پہ گیٹیاں بہت معمولی مزاحمت سے فرّاٹے بھرتی ہوئے گزرتی ہیں ۔ان کی رفتار اور اسراع معلوم کرنے کےلیے بصری کِواڑ (photogate) فِزلاگرسے منسلک کیے گئے ہیں۔ اب ان گیٹیوں پہ معلوم اوزان کےذریعے معلوم قوت لگائی جاتی ہےاور ان کا اسراع معلوم کرکے نیوٹن کے المشہور F=ma قانون کی تطبیق تلاش کی جاتی ہے۔
اِسی طرح کے تقریباً سو کے قریب تجربے اس وقت فِزلیب کی زینت ہیں۔ میرے لیے فِزلیب میں آنا ایک مشاہدہ گاہ اور عجائب گھر کی سیر سےکم نہیں۔ کہیں گیندآپس میں ٹکرانے کی دھمادھم ہے، توکہیں مائعات کے بخارات کی صفیری آوازیں۔ کہیں پنڈولم درویشانہ گھوم رہےہیں تو کہیں کوئی مصروف طالبِ علم دُنیا ومافیہا سے بےخبرپانی کے اٹکےہوئے قطروں کے ٹپ ٹپ گرنے کا انتظار کررہا ہے۔ اس کےلیے وقت جیسے رُک ساگیا ہے،
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اِس کار گہِ شیشہ گری کا
فِزلیب میں ہر طرح کے تشنگانِ علم کےلیے سامانِ حیرت ہے۔ریاضی کےدلدادہ مقناطیسی پنڈولم سے کھیل سکتے ہیں۔ڈیٹا کے شائقین تصویروں کی جانچ پڑتال کرسکتےہیں۔ہاتھ سے کام کو پسند کرنے والے مہندسین کےلیے لکڑی کےٹکڑوں کو جوڑ کر متوازن پُل بنانے کی آزمائش کےدوران تفریح کے ساتھ ساتھ سائنسی حکمت حاصل کرنےکے مواقع بھی ہیں۔ نُوریات کےشایقین کےلیے گوشہِ اِبنِ سہل سات آٹھ دلچسپ نوری تجربوں (optical experiments) کا میدان ہے۔بہت سے تجربات کیمرے اور سمارٹ فون کی مدد سےبھی کیے جاتےہیں۔ کئی نوبل انعام یافتہ تجربوں کی جدید اور معاصر صورت بھی فِزلیب میں دکھائی دے گی جیسے ۱۹۱۰ءکا پِیرِن(Perrin) کا تجربہ ایک جدید خوردبین کی مددسے نئے روپ میں جلوہ گر ہے۔اِس تجربےمیں پولی سٹائرین کے مائکرو دانے (polystyrene microspheres) پانی کی ایک باریک سی تہ میں خوردبین کےنیچے دیکھے جاتےہیں اور ہمارے تیارکردہ سو فٹ وئیر Phystrack کےذریعےان کے مقامات کو وقت کے دھارے پہ متعین کیا جاتاہے جس سےبےربط(random) اعمال کی فزکس سمجھنے میں بےحد آسانی ہوجاتی ہے اور ایک تاریخی اہمیت کے حامل تجربے کوبھی ازسرِنوزندہ کرلیاجاتاہے۔
فِزلیب کی تیاری میرے لیے چشم کُشا اور ذہن کُشاتھی۔ مجھے جو تھوڑی سی فِزکس آتی ہے، اس کا بڑا سہرااِنھی تجربات کی تیاری کےسر ہے۔اس تجربہ گاہ کاتعلیمی نصاب کسِی نظریاتی نصابِ تدریسی (theoretical coursework) کا مرہونِ منت نہیں۔ میں اس قبیل کے پروفیسروں سے تعلق رکھتا ہوں، جِس کے مطابق تجرباتی سائنس خود نظریات کوتشکیل دینے میں اہم کردارادا کرسکتی ہے۔ اِسی طرح فِزلیب کی کوکھ سے جنم لینے والی تنظیم قوسین سائنٹیفک کم خرچ پہ سائنسی آلات بنانے کے رستےپہ گامزن ہے۔ اُمید ہےکہ آلات اورخیالات کایہ ادل بدل، فزکس کی دُنیا میں، ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں کو کھول کے اُنہیں فطرت کےاسلوب کوسمجھنے اور بالآخرتسخیر کرنے کےلیے ایک خوداعتمادی عطاکرےگا۔ ہماری تجربہ گاہ اِسی جذبے کی سر شاری میں قائم ہوئی اور یہی جذبہ اِسے آگے بڑھنے پہ مجبور کرتاہے۔