Post Date
Mar 27 2023

پانی کی نمک ربا ئی: پلاسٹک کے فضلات کا انوکھا استعمال , ماحولیاتی آلودگی میں کمی کی طرف ایک اہم پیشرفت

جنوری ۲۰۲۳ میں بین الاقوامی جریدے "امریکن کیمیکل سوسائٹی "(1) میں  لمز شعبۂ کیمیا اور کیمیکل انجنئیرنگ سے تعلق رکھنے  والے ڈاکٹر فہیم حسن اختر کے طالب علم محمد حفی وڈگاما اور سجاد حسین کا ایک تحقیقی مقالہ شائع ہوا۔ اس تحقیق کے مطابق "پولی (ایتھلین ٹیریفتھلیٹ) "(2) کو اختراعی عمل(3) سے گزار کر ایسی جھلیاں تیار کی جا سکتی ہیں جو نمکین پانی سے اضافی معدنیات علیحدہ کر کے اسے پینے اور زراعت کے لیے قابلِ استعمال بنا نے میں معاونت فراہم  کرتی ہیں۔


بلاشبہ پانی، بقائے حیات کا بنیادی رکن اور زندگی کی روانی کا ضامن ہے لیکن موجودہ صورتِ حال کے مطابق دنیا کی ایک تہائی  آبادی کو پانی کی قلت کا سامنا ہے جبکہ سن ۲۰۵۰ء تک یہ مشکل دنیا کی آدھی آبادی کو درپیش ہو سکتی ہے۔ آبادی میں غیر متوقع اضافہ، تیزی سے بڑھتی صنعتیں اور ماحولیاتی تبدیلیاں صاف پانی کی عدم دستیابی کی اہم وجوہات ہیں۔


اس مشکل سے نمٹنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ نمکین پانی کو نمک ربائی(4) کے عمل سے گزار کر میٹھے پانی کے ذخائر میں اضافہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ڈاکٹر فہیم حسن اختر ،محمد حفی اور انکی ٹیم نے پولی (ایتھلین ٹیریفتھلیٹ) کا استعمال کیا۔ یہ ایتھلین کا ایک مرکب ہے جو پلاسٹک فلم کی شکل میں ہوتا ہے اور عموماً پیکنگ  کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بیشتر اوقات پہلی ہی مر تبہ مختصر استعمال کے بعد یہ پلاسٹک اہم ترین قدرتی نظام، جیسے دریا اور سمندر، میں پھینک دیا جاتا ہے جو یقینی طور پرقدرتی  غذائی سلسلے کے لیے نقصان دہ ہے۔ 


بلا شبہ پلاسٹک، ماحول دشمن فطرت کا حامل اور زمینی و آبی  آلودگی کا باعث ہے۔ تاہم اس کے متبادل مادے، جیسے کاغذ اور شیشہ، فضائی آلودگی کا سبب بنتے ہیں۔ لہٰذا بہتر نقطۂ نظر یہ ہے کہ پلاسٹک کے فوائد بھی حاصل کیے جائیں اور ماحول پر اس کی غیر مناسب تقویض سے پیدا ہونے والے منفی اثرات کو بھی کم کیا جائے۔


اس ضمن میں محمد حفی کے تجربات پلاسٹک کو  اختراعی عمل سے گزار کر دوبارہ قابلِ استعمال بناتے ہیں۔  ضائع شدہ بوتلوں کے پلاسٹک سے  جھلیاں تیار کرنے کے  اس تحقیقی عمل میں  غیر محلل  کے ذریعے   مرحلہ وار علیحدگی کے طریقہ کار کو اپنایا گیا ہے۔ ٹرائے فلوروایسیٹک ایسڈ(5) کو بحیثیت محلل اور 25 ڈگری پر پانی سے غسلِ انجماد کو غیر محلل کے طور پر استعمال کیا گیا۔  فوریئر  ٹرانسفارم(6)، حرارتی  ثقلی تجزیہ کاری(7) اور الیکٹرون خورد بین(8)  کی مدد سے ان جھلیوں کی درجہ بندی کی گئی۔ پھر  بہترین جھلی کا تعین کرنے کے لیے  ان   تیار کردہ  جھلیوں کی سرایت پذیری(9) اور بہاؤ (10)کا   مختلف موٹائی ، کثیر سالمی مرکب کی کثافت (11) اور بخارات بننے کے وقت (12) کی بنیاد پر  تجزیہ کیا گیا۔  

 نتیجتا ًان جھلیوں میں  ٪33 تک  ازالہ نمک کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے ۔  یہ عمل موجودہ تحقیقات کے مقابلے میں نہ صرف کم توانائی استعمال کرتا ہے بلکہ نقصان دہ کاربن کے کم اخراج کا ذریعہ بھی ثابت ہوا ہے۔ محمد حفی کی تحقیق کے نتائج کی روشنی میں  مستقبل میں پلاسٹک کے دوسرے مرکبات اور ریشوں کو دوبارہ کارآمد بنانے کے لیے بھی  جانچا جا سکتا ہے۔  مزید برآں یہ تحقیق استعمال شدہ پلاسٹک کے دوبارہ استعمال کے باعث ماحولیاتی آلودگی میں کمی کا جائزہ لینے کے لیے نقطہ آغاز  فراہم کر تی ہے۔

 

 

جدید علوم کے حصول و ترویج کے ساتھ ساتھ  لمز سکول آف سائنس اینڈ انجینئرنگ کا ایک اہم مقصد  انسا ن اور اس سے وابستہ ماحول کو درپیش حقیقی مسائل کاحل تلاش کرنا ہے۔ ڈاکٹر فہیم حسن اختر کے زیر سایہ شعبۂ کیمیا ور کیمیکل انجنئیرنگ کی یہ تحقیق، اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو نہ صرف پلاسٹک کے فضلات کو کار آمد بنانے کا موثر ذریعہ ہے بلکہ پانی سے نمک ربائی کی مارکیٹ کو بھی جلا بخشتی ہے۔


  بی -ایس کیمیکل انجینئرنگ کے طالبِ علم محمد حفی کی یہ کامیابی ان کے چار سالہ ڈگری پروگرام کی ریاضت اور  آخری سال میں کی جانے والی تحقیقی کاوشوں کا ثمر ہے ۔ محمد حفی  کو  اپنا علمی سفر  جاری رکھنے کے لیے امریکہ کی تین اعلیٰ جامعات بشمول پین سٹیٹ یونیورسٹی (13) ، آبرن یونیورسٹی (14) ، آلاباما یونیورسٹی (15) سے مکمل وظیفے کے ساتھ پی-ایچ-ڈی کی پیشکش موصول ہونا ،لمز کے اعلیٰ تعلیمی  معیار اور محمد  حفی کی شاندار  کارکردگی کی روشن دلیل ہے 
 


  1.  American Chemical Society (ACS)
  2. Poly (Ethylene Terephthalate) (PET)
  3. Innovative process
  4. Desalination
  5. Trifluoroacetic acid
  6. Fourier Transform Infrared (FTIR) spectroscopy.
  7. Thermal Gravimetrical Analysis (TGA)
  8. Scanning Electron Microscope (SEM)
  9. Permeance
  10. Flux
  11. Polymer concentration
  12. Evaporation time
  13. Penn State University
  14. Auburn University
  15. Alabama University